ایک دور پیسے، آنے اور روپیہ کا بھی تھا۔ میرے ہوش سنبھالنے تک کوڑی، دھیلے اور پائی کا دور مکمل دم توڑ چکا تھا لیکن پرانے دور کے پیسے، ادھنے، آنے دو آنے، چار آنے، اٹھنی اور روپے کے دور کی باقیات کے ساتھ ساتھ نئے دور کے ’’پیسے‘‘ اس کی جگہ لے رہے تھے۔ یہ پیسے پاکستان کے ایک روپے کا سواں حصہ تھے یعنی یہ اتنا سستا زمانہ تھا کہ خرید و فرخت کرنے کے لیے ایک روپے کے نوٹ کو 100 حصوں میں تقسیم کیے بغیر لین دین کسی طور ممکن نہ تھی۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا تھا کہ اگر اس زمانے کے نئے پیسے سے چھوٹے کوئی اور سکے بھی ہونے چاہئیں تاکہ لین دین میں مزید بہتری آ سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے دم توڑ جانے والے زمانے میں پائیاں اس ضرورت کے لیے چلا کرتی تھیں لیکن اس وقت کی حکومت پاکستان کا یہ آخری فیصلہ تھا کہ اب نئے ’’پیسے‘‘ سے مزید چھوٹا اور کوئی سکہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ دکاندار اپنی آخرت بچانے کے لیے تول میں کچھ اضافہ کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیا کرتا تھا۔ دکاندار کے اس عمل کو ’’جھونگا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب کیونکہ ضمیروں کو سلا ہی نہیں، ماردیا گیا ہے تو جھونگا بھی اس کے ساتھ دفن ہو چکا ہے اور مجھ جیسی عمر والوں کے علاوہ شاید ہی کسی کو جھونگے کا مطلب اور مفہوم بھی معلوم ہو۔ کسی بھی دور کے نقش یک دم نہیں مٹا جایاکرتے چنانچہ لوگ ایک مدت تک آنے، دو آنے اور چار آنے کے جھگڑے میں الجھتے رہے۔ آنا کتنے نئے پیسوں کے برابر ہوگا، دو آنے کتنے پیسوں کے برابر ہوں کے اور اگر چونی، جو کہ 25 پیسوں کے برابر ہوا کرتی تھی، دکاندار کو دینے کے بعد کوئی چیز دو آنے کی لینی ہو تو دکاندار کتنے پیسے واپس کرے گا وغیرہ۔ ایک پیسے کی بھی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھاکہ یہ چار آنے اکثر مقام پر تکرار سے بھی آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ دکاندار دو آنے کی کوئی شے دینے کے بعد 12 پیسے لوٹانے کی کوشش کرتا تو گاہک 13 پیسے کی واپسی کا مطالبہ کرتا یا دو آنے کی چیز لے کر جب گاہک بارہ پیسے دکاندار کو دیتا تو دکاندار 13 پیسے لینے کے لیے زور دیتا اور پھر نوعیت تکرار سے آگے نکل جایا کرتی تھی۔ بسوں میں جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا کہ ایک روپے سے زیادہ ’’ریزگاری‘‘ نہیں ملے گی اور ہوٹلوں میں لکھا ہوا ہوتا تھا کہ پانچ اور دس روپے والے پہلے کاؤنٹر سے رجوع کریں۔ لہٰذا ایسے دور کو پاکستان کا سستا ترین دور کہا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ دور بہت سستا تھا لیکن کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا کہ یہی دور اچانک مہنگا ہو جایا کرتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ ملک کی تنزلی کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحطاط بھی ہوتا گیا۔ ایک جانب قیمتوں میں اضافہ ہوتا گیا تو دوسری جانب منافع خوری نے جینا حرام کرنا شروع کردیا۔ قیمت اگر ایک روپے بڑھتی تو منافع خور اپنے ہر شے کے نرخ دو گنا کردیا کرتے تھے۔
مہنگائی بالکل جسمانی حرارت کی طرح ہوتی ہے۔ ایک تندرست انسان کے بدن کی
حرارت 98 اعشاریہ 4 ہوتی ہے، جیسے ہی جسمانے حرارت اس سے سوا ہوتی ہے اسے بخار کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کے ساتھ لاتعداد ضروریات لگی ہوئی ہیں جس کے حصول کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کی آمدنی اور ضرورت کے مطابق پیسہ ہے تو وہاں تک اس کے لیے مہنگائی نہیں ہے لیکن قوتِ خرید آمدنی سے کم ہو جائے تو وہی اس کے لیے مہنگائی کا نقطہ ٔ آغاز ہوگا۔ اس قسم کے مہنگے اور سستے ادوار پاکستان میں آتے اور جاتے رہے کیونکہ کبھی آمدنیوں میں اضافہ دیکھا گیا اور کبھی آمدنیوں سے زیادہ مہنگائی قدم جمائے ہوئے نظر آئی۔ ممکن ہے کہ یہ بات کافی لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ سکی ہو لہٰذا میں ماضی میں بہت دور جائے بغیر آج سے تقریباً ساڑھے چار سال پیچھے کی جانب لوٹتا ہوں۔ آج سے 54 ماہ قبل کا دور بہت سارے معاملات میں آج سے 5 سو سے 3 سو فی صد سستا تھا۔ کھانے پینے کی ہر شے، دوائیں، سبزیاں، رکشا ٹیکسیوں کے کرائے، حج، عمرہ، کپڑے، اسکول کی کتابیں، پڑھنے کے عام رسالے اور اخبارات سب کے سب 3 سے 5 گنا سستے ملا کرتے تھے، مثال کے طور پر آٹے اور پکانے کے تیل ہی کو لے لیا جائے تو یہ آج سب 5 سے 6 گنا مہنگے ہیں جبکہ اس دوران آمدنیوں میں آٹے میں نمک کے برابر بھی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ گویا آج سے ساڑھے چار سال قبل کا زمانہ، سستا زمانہ تھا اس لیے کہ آمدنی اور اخراجات میں کسی حد تک ایک توازن تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ اشیا کی قیمتوں کا تیر جو عمودی ہو چکا ہے، کسی بھی مقام پر اپنی عمودی پرواز پر رکتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اس پر تشویشناک بات یہ ہے کہ ذریعہ آمدنی کے بڑھ جانے کے امکانات معدوم سے معدوم تر ہیں۔ مہنگا کا طوفان اپنی جگہ لیکن جو بات نہایت خوفناکیت اختیار کرتی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی اس نازک صورتِ حال کا احساس پاکستان کے عوام سمیت، کسی ایک بھی ادارے کو نہیں۔ ہر ادارے میں پڑنے والی دراڑوں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، مضبوط سے مضبوط اداروں میں پھوٹ پڑ چکی ہے، عوام تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں، انصاف کا دور دور تک کہیں بھی نام و نشان نہیں پایا جاتا اور اگر میں کہوں کہ پاکستان چھے سے زیادہ مقامات سے چٹخ چکا ہے تو بالکل بھی بیجا نہیں ہوگا۔ ہر صوبہ و ذیلی صوبہ (کشمیر، بلتستان، قبائلی ایجنسیاں) چار چار آنے مانگ رہا ہے اور یہ مطالبہ ویسا ہی ہے جیسے 1971 میں مشرقی پاکستان کیا کرتا تھا لیکن ہم نے اس وقت چار آنے دینا اپنی انا کے خلاف سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روپیہ پورا پکڑانا پڑ گیا۔ اگر آج بھی ہر ہر صوبے و ذیلی صوبوں کے چار چار آنوں کے جائز مطالبات کو پورا نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب (میرے منہ میں خاک) پورے پورے روپے دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تنازعات کو یا تو بات چیت سے حل کر لیا جائے یا پھر سب کے گلوں سے پٹے کھول دیے جائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ڈیموں، جھیلوں، تالابوں اور دریاؤں کے پانیوں کا رنگ (خدا نخواستہ) سرخ ہونا شروع ہو جائے۔