رمضان کی اہمیت اور ابن آدم

488

اے ابن آدم رمضان بڑی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ اس مہینے میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ مسلمان 30 روزے رکھتے ہیں، عبادت کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، تاجر منافع کم کردیتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا، ہمارے تاجر تو رمضان کا انتظار کرتے ہیں کہ عوام کو کس طرح سے لوٹنا ہے، ابھی ایک مہینے کے لیے میں اپنے بیٹے کے پاس دبئی گیا تھا اللہ نے مجھے پوتی جیسی نعمت سے نوازا، وہاں میں نے دیکھا کہ استقبال رمضان کیا ہوتا ہے، رمضان شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہر اشیا پر 50 فی صد کمی کردی جاتی ہے، علاقوں کو سجایا جاتا ہے، گھروں کو سجایا جاتا ہے ہر مسجد کے باہر AC شامیانے لگادیے جاتے ہیں جہاں مسافروں اور مزدوروں کے لیے اعلیٰ ترین افطار اور کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سحری پر اعلیٰ معیار کے کھانے مزدوروں، مسافروں کے لیے موجود ہوتے ہیں، اللہ نے ہمارے ملک میں بھی اچھے لوگ اور اچھے فلاحی ادارے دیے ہیں جو سحری اور افطار کا اعلیٰ ترین انتظام کرتے ہیں۔ سیلانی، الخدمت، انمول فائونڈیشن کے علاوہ بھی ہر علاقے میں مخیر حضرات روزے داروں کے لیے اہتمام کرتے ہیں مگر افسوس کہ حکومت اور اُس کی انتظامیہ ہمیشہ سے نااہل رہی ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں منافع خور آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ مرغی کے ریٹ 600 روپے جو گوشت عام دنوں میں 750 روپے کلو باآسانی ملتا ہے۔ رمضان میں 900 ہڈی والا اور بغیر ہڈی کا گوشت 1000 روپے کلو، آٹا 150 روپے کلو، پھلوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ دودھ 220 روپے کلو۔
کمشنر صاحب تو دفتر کے باہر ہی نہیں نکلتے۔ DC اور AC ہر ہفتہ علاقے کا دورہ کرتے ہیں من پسند چینل والے اُن کے ساتھ ہوتے ہیں کمیٹی میں۔ ہمارے دوست جو صارفین کے حقوق کے علمبردار ہیں، کوکب اقبال اور شکیل بھائی یہ بھی انتظامیہ کے ساتھ دکانوں پر چھاپے مارتے ہیں، 10 ہزار سے 5 ہزار وپے کا چالان کیا جاتا ہے کچھ کو DC آفس لے جایا جاتا ہے، چوہے بلی کا یہ کھیل پورے رمضان چلتا رہتا ہے، وجہ قانون کی بالادستی کا نہ ہونا اگر منافع خوروں کو سرے عام کوڑے لگائے جائیں ، اُن پر بھاری جرمانہ لگایا جائے تو سب سیدھے ہوجائیں جب علاقے کے تھانے کی افطاری اور سحری باہر سے مفت آتی ہوں۔ ایس ایچ او صاحب کے لیے گوشت، مرغی، سبزی مفت آتی ہو تو ملک کا یا قوم کا حال کس طرح سے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ ہمارے گورنر کامران ٹیسوری صاحب نے 30 روزے تک گورنر ہائوس میں افطار و ڈنر کا اہتمام کر رکھا ہے۔ ہمارے صحافی دوست روزانہ وہاں جا کر افطار کررہے ہیں اور سوشل میڈیا پر تعریف کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دعوت ہر خاص و عام کے لیے رکھی ہے، اچھا اقدام ہے۔ مگر گورنر صاحب کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس کے اخراجات اگر سرکاری طور پر ہورہے ہیں تو یہ عمل غلط ہے اور اگر یہ اخراجات ہمارے گورنر صاحب اپنی جیب سے کررہے ہیں تو وہ تعریف کے حق دار ہیں۔ گورنر صاحب ہمارے ایک صاحب ثروت انسان ہیں اللہ نے ان کو نوازا ہے اگر یہ اخراجات وہ کررہے ہیں تو یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے بہت سے دوست سوشل میڈیا پر JDC اور سیلانی کے کھانے کے یا راشن کے عمل کو پسند نہیں کرتے، اُن کا یہ اعتراض ہے کہ یہ ادارے قوم کو بھکاری بنارہے ہیں۔ ابن آدم کہتا ہے خیر کا کوئی بھی عمل ہو وہ برا نہیں ہوتا بس طریقہ وہ ہو جو دین نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ مگر افسوس ہمارے ملک میں یہ عمل صرف چند مخیر حضرات ہی کرتے ہیں جن کو میں جانتا ہوں۔ وہ نام بتانا بھی پسند نہیں کرتے مگر مدد وہ صرف حق دار ہی کی کرتے ہیں۔ مخیر حضرات اور بڑی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ بے روزگاروں کے لیے روزگار فراہم کرنے کی کوشش کریں، گھریلو صنعت کو پروان چڑھائیں۔ اپنی زکوٰۃ سے چھوٹے کارخانے لگادیں، تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں علم و ہنر کی تربیت دی جائے بھیک کے رواج اور کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
ایک ایسا واقعہ نمودار ہوا جس نے مجھے تو کیا ہر درد دل رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہمارے ملک میں راشن کی تقسیم تو ہر این جی او کرتی ہے مخیر حضرات کرتے ہیں ہماری صحافتی جماعت سندھ یونین آف جرنلسٹ SUJ کی جانب سے غریب بھائیوںکو گھروں پر جا کر راشن فراہم کیا جاتا ہے۔ ارشاد محمود خان، فضل رزاق بابو اور شہزاد بٹ کی نگرانی میں یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے مگر کراچی سائٹ ایریا نورس چورنگی کے قریب ایک نجی کمپنی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے نالے میں گرنے سے 3 بچے اور 9 خواتین جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ یہ غربت کے مارے لوگ تھے حکومت کے لیے یہ واقعہ ایک لمحہ فکر ہونا چاہیے مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں حکمران بھی ملے تو بے حس سب کو بس مال بنانے کی حواس ہے، اتنا مال بنالیا ہے کہ ان کی 7 نسلیں آسانی سے اور عیاشی سے زندگی بسر کرسکتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ان کے پیٹ بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔
میں ہر کالم میں اپنی قوم سے یہ اپیل کرتا رہتا ہوں کہ 75 سال میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ نے عوام کو کیا دیا ہے۔ سوائے ذلت کی زندگی کے ایک موقع جماعت اسلامی کو بھی دے کر دیکھنا ہوگا بلدیاتی الیکشن میں کراچی نے جماعت کو کامیاب کروایا مگر پیپلز پارٹی نے دھاندلی کی اور آج تک یہ عمل رکھا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اب سیاست سے خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ متحدہ کو تو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ تقسیم کرچکی ہے، ویسے بھی متحدہ اپنے فکرو فلسفے کو چھوڑ چکی ہے، آج متحدہ کا کوئی لیڈر کروڑ پتی اور ارب پتی سے کم نہیں مہاجروں کو بے بس چھوڑ کر سب نے مال بنانے کا کام شروع کردیا۔ اتفاق سے میں 1986ء سے متحدہ کو دیکھ رہا ہوں۔
کراچی گوٹھ آباد اسکیم میں تبدیل نہیں ہوتا۔ خیر کراچی کو کراچی والوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تباہ کر ہی دیا ہے۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ پر کہ اُن کو کراچی کی تباہی کیوں نظر نہیں آتی۔ ارے کم از کم مذہبی تہوار پر تو کچھ کام کرلیں تمام روڈیں ٹوٹ چکی ہیں ان کو ہی تعمیر کروادیں، سحری اور افطار میں کراچی کے عوام کو گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے جو کراچی میں کبھی نہیں تھا مگر شہباز شریف کی حکومت آتے ہی ملک کئی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ آٹا اور تیل کو دیکھ لیں، چاول کے ریٹ دیکھ لیں، ڈالر اور پٹرول کی قیمتوںکو دیکھ لیں، روپے کی قدر مسلسل گرتی جاریہ ہے۔ بیرونی قرضوں کی بھرمار ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ، یوٹیلیٹی بلوں کی بڑھتی رقوم، صنعتی شعبے کی حالت زوال پزیر، کاروبار بند ہورہے ہیں، دہاڑی دار مزدور کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے، سفید پوش لوگ آج زکوٰۃ لے رہے ہیں، کتنے ضرورت مند میرے کلینک پر آکر اپنے مسائل بیان کررہے ہیں۔ کاش عوام اپنے لیے کوئی بڑا فیصلہ کرلیں، مجھے ملک کسی بڑے انقلاب کی جانب جاتا نظر آرہا ہے، اللہ پاکستان کو سلامت رکھے۔