تنظیم اسلامی شعبہ نشر واشاعت ماڈل ٹاؤن لاہور کی جانب سے ایک پریس ریلیز نظر سے گزری جس کا عنوان تھا ’’آئین اور قانون سے کھلواڑ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو گا‘‘۔ اس کے متن میں تنظیم اسلامی کے موجودہ امیر محترم شجاع الدین شیخ کی جانب سے انتخابی عمل میں حکومتی تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور الیکشن کمیشن کو بھی انتخابات میں لیت و لعل پر ٹھیک ٹھاک طریقے سے تنبیہ کی گئی۔ اس میں بظاہر کوئی بھی خاص بات نہیں ہے اس طرح کے مطالبات تمام ’’جمہوریت‘‘ پر یقین رکھنے والی جماعتیں کر رہی ہیں خصوصاً جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق اور دیگر اکابرین بھی انتخابات کے بروقت اور شفاف طریقے سے انعقاد پر زور دیتے نظر آتے ہیں اور ایسا مطالبہ تمام ’’جمہوری‘‘ جماعتوں کا حق ہے اہم اور چونکا دینے والا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس جماعت یعنی تنظیم اسلامی کی جانب سے یہ مطالبہ چونکا دینے والی بات ہے۔ پرانے احباب تو اس امر سے واقف ہیں مگر شاید نئی نسل کے مطالعے سے بھی یہ نہ گزرا ہو کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی اولین وابستگی جماعت اسلامی سے تھی اور وہ مولانا مودودی کے شاگرد خاص کی حیثیت سے ایک عرصے تک ان کے نظریات کے بہت بڑے حمایتی رہے ہیں۔
جماعت اسلامی میں غلبہ اسلام کے لیے ’’انتخابی سیاست‘‘ کو راستہ بنایا گیا یعنی ایک سیاسی اسلامی جماعت انتخابات میں جیت کے ذریعے ایک منتخب اسلامی حکومت قائم کرے اور صالح تبدیلی عمل وقوع پزیر ہو جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد جماعت اسلامی کے تمام تر نظریات کی معاونت کے لیے خالص تھے مگر انہیں اس ’’انتخابی سیاست‘‘ کے طریقہ کار پر ایسا اختلاف ہوا کہ پھر وہ دوبارہ کبھی جماعت اسلامی کے ساتھ نہ مل سکے اور انہوں نے جماعت اسلامی ہی کے طریقۂ تبلیغ دین و دروس کو اختیار کرتے ہوئے اپنی الگ جماعت تنظیم اسلامی کے نام سے بنالی اور اس میں انتخابی سیاست سے ہٹ کر ’’احتجاجی سیاست‘‘ کے طریقے کو اختیار کیا یعنی صرف جلسوں، کانفرنسوں، ریلیوں، دھرنوں، اور مظاہروں کے ذریعے غلبہ اسلام کی جدوجہد کی جائے ڈاکٹر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارا راستہ نہ تو (ballet) کا ہے اور نہ ہی (bullet) کا‘‘۔
ہمیشہ سے واضح طور پر تنظیم اسلامی انتخابی عمل کے مخالف راستے پر ہی گامزن رہی اور جماعت اسلامی کے تمام تر قرآنی، فکری، تہذیبی، اصلاحی اور فقہی لٹریچر سے مماثلت ومشابہت رکھنے اور اسی پر مکمل عمل کرنے کے باوجود جماعت اسلامی کے انتخابی عمل سے ہمیشہ دور رہی ایسے میں 31 مارچ 2023 کی اس پریس ریلیز کے مطابق تنظیم اسلامی کے انتخابی عمل کی تاخیر پر حکومت وقت اور الیکشن کمیشن کو تادیب وتنبیہ کرنے کو ہم تازہ ہوا کا جھونکا نہیں کہہ سکتے ہر چند کہ ماچھی گوٹھ کے اختلافی واقعہ کے بعد ان کی علٰیحدگی کے بعد یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس علٰیحدگی کے اہم ترین مسئلہ ’’انتخابی سیاست‘‘ پر وہ دوبارہ جماعت اسلامی سے بہت قریب محسوس ہو رہے ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ انتخابی قربت اپنی آبائی جماعت، جماعت اسلامی سے ہوتی تو ہم لا محالہ اسے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے سکتے تھے مگر یہی تو ستم ہے کہ ’’ستم گر نے واپسی کا راستہ دشمن کے گھر کے دروازے سے نکالا‘‘۔
یہ میرا قطعی ذاتی مشاہدہ و تجربہ ہے اور اس میں ہر کسی کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے ذاتی اس بنیاد پر کہ الحمدللہ میں رکن جماعت اسلامی ہونے کے باوجود اپنی جماعتی تربیت کے تحت دوسری جماعتوں کے دروس، پروگرامات اور دینی تذکیری محافل میں شرکت کرتے ہوئے کبھی دل میں تنگی محسوس نہیں کی اور الحمدللہ یہی ہماری تحریکی تربیت بھی ہے کہ ہر کسی دینی وتحریکی جماعتوں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ وقت ملے تو انہیں سننے میں بھی کبھی قباحت نہیں کرتے ہمارے حلقہ احباب میں تبلیغی جماعت کی ’’تعلیم‘‘ ہو یا گلی محلے کے دروس و قرآنی محافل، جماعت الدعوہ کے نماز جمعہ کے اجتماعات ہوں یا تنظیم اسلامی کی تراویح کی محافل ہم نے ہمیشہ سب میں مقدور بھر شریک ہونے کی ہمیشہ کوشش کی اور سب سے جڑنے اور جوڑے رکھنے کی جماعتی پالیسی پر کاربند رہے مگر دوسال پیش تر اسی طرح کے ایک درس قرآن کی محفل میں تنظیم اسلامی کے ایک بہت بڑے اور محترم مدرس صاحب (نام لکھنا مناسب نہیں) نے اپنی دانست میں نیازی حکومت کی حمایت میں ببانگ ِ دہل بہت لمبا چوڑا بیان داغ دیا جبکہ ہمارے ذاتی، تجزیاتی و تحقیقی موقف کے مطابق ان 75 سال میں سیاسی قیادت کا فقدان رہا اور اس مملکت اسلامیہ کو کوئی صادق و امین میسر نہ آ سکا نہ ہی نظریہ پاکستان لاگو کرنے والے حکمران آئے نہ کسی نے ایسا دعویٰ کیا ہر کسی نے اس ملک کو لوٹا، کھسوٹا توڑا، مگر ریاست مدینہ کی ڈگڈگی بجا کر ڈی جے کی تھاپ پر جس نے قوم کی بیٹیوں کو سر بازار نچوایا اس جماعت کی درس قرآن کے دوران تبلیغ نے تو گویا ہمیں شدت سے منظر سے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا ہم تمام تر دینی ہم آہنگی کے جذبات کے باوجود اس کھلی گمراہ کن ’’سیاست‘‘ پر چیں بہ جبیں ہو گئے اور دینی وفکری مماثلت پر بھی عرصہ دو تین سال سے تنظیم اسلامی کے پروگراموں سے دور ہوتے گئے پھر معلوم ہوا کہ تنظیم اسلامی والے اس ’پٹی آئی‘ کی سپورٹ سے خائف ہو کر تائب ہوچکی کچھ معذرت خواہانہ بیانات کا چرچا بھی ہوا اور ہم نے بھی دل بڑا کرکے برادر جماعت سمجھ کر دوبارہ کبھی کبھار ان کی محافل میں جانا شروع کر دیا مگر اس پریس ریلیز نے ہمارے زخموں پر سے دوبارہ کھرنڈ اتار دیا اس ملک خداداد نے سیاسی بحرانوں کے کون کون سے مراحل نہ دیکھے جہاں سخت سے سخت دل پگھل کر سخت سے سخت کٹر غیر سیاسی جماعتیں تک بیانات دے بیٹھیں کٹر اور خالص مذہبی علماء و مشائخ نے چپ کے روزے توڑ دیے مگر تنظیم اسلامی ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں غیر سیاسی و غیر انتخابی رہی ہم ہنس دیے ہم چْپ رہے کوئی بات نہیں یہ بھی ادا ہے ان کی، ہیں تو جماعت اسلامی ہی کی ٹوٹی ہوئی شاخ، چلو کوئی بات نہیں ہم انتخابی سیاست اور یہ احتجاجی سیاست سے منزل تو اسلامی ریاست ہی ہے ناں خیر ہے کہتے رہے مگر ہمارے انتخابی عمل و انتخابات کے حوالے سے کبھی بھی ساتھ نہ دینے والی ہماری ہی جماعت کے اس حصے نے منہ کھولا بھی تو کس کے لیے ؟ اور کس طرح سے؟
ایسے میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس پریس ریلیز کے مطابق اب آپ کے اور ہمارے درمیان ’’انتخابی سیاست‘‘ کے حوالے سے بھی ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے آپ بھی ہماری طرح انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں تو لوٹ آئیں پلٹ آئیں اپنی اس اصلی خالص ہم نظریاتی اور سچی جماعت، جماعت اسلامی کی طرف۔ دوبارہ ایک صف میں کھڑے ہو کر اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں
یہ کیا کہ جس نکتے پر اعتراض تھا جب وہ ختم کر دیا تو اغیار کے ساتھ کھڑے ہونے سے بہتر ہے کہ ’’اپنوں‘‘ کے کندھوں سے کندھا ملا کر بنیان المرصوص کی صورت ربّ العالمین کو اس رمضان المبارک میں راضی کر لیجیے منزل تو ہمیشہ سے ایک رہی ہے راستے کا اختلاف تھا جو اس پریس ریلیز کے مطابق ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ بقول اقبال
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی