چیف جسٹس کا ’ازخود نوٹس کا اختیار‘ عدلیہ میں تقسیم کی وجہ

609

اگر کو ئی عدالت چلا جائے تو وہاں ہر قدم پر کوئی نہ کوئی شخص موجود ملے گا اور آپ سے کہہ رہا ہو گا کہ آپ کا کام جلد کرانے کی وہ معمولی رقم لے گا۔ اسی طرح عدالتوں کی در و دیوار میں مختلف گندے نشان لگے بھی مل جائیں گے جو دیوار کو بد صورت بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گے۔ اندھیرے اندھیرے عدالت کے کمرے اور الماریوں میں کچھ اندر کچھ باہر اور بکھری فائلیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے یہاں مقدمات کے فیصلے کے لیے برسوں یا پوری زندگی لگ جائے گی لیکن آج بھی اگر کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوتا ہے حکومت انتظامیہ اور کو ئی بااثر شخص اس پر ظلم کر رہا تو اس کی زبان پر ایک لفظ ’’میں تم کو کو رٹ میں دیکھ لوں گا۔ عدالتوں پر آج بھی عوام کا اعتماد ہے اور ’’عدالت عظمیٰ‘‘ سمیت تمام عدالتوں میں ججوں کی کر سی بیٹھنے والے ہر شخص کو اس بات پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے وہ عوام کے اعتماد کو کبھی نہ ٹوٹنے دے لیکن سوال یہی ہے آج عدالت عظمیٰ میں جو جنگ جاری ہے اس پر پوری قوم بے سکونی کے سونامی میں ڈوب رہی ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’’عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘‘ مارچ 30 کوکثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے کے مطابق اب از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی، جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کے حوالے سے آوازیں عدالت عظمیٰ کے اندر سے بھی اٹھائی جا رہی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں ملتی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد امین کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک عدالتی ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے تب تک چیف جسٹس کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے از خود نوٹس سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے۔
اس سے قبل، صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں سب سے پہلے جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے اس بارے میں اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اپنے نوٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے‘۔ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بھی ایک نوٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت از خود نوٹس لینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ریفر کرنا مناسب نہیں‘۔
اس سے قبل یہ اختیار عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔ یہ بل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں سیاسی تنائو کو ختم کرنے کے لیے تمام نگاہیں عدالت عظمیٰ کی جانب ہیں تاہم ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر ججوں کے درمیان اختلاف رائے بھی سامنے آ رہا ہے۔ اس کی ایک مثال الیکشن التوا کیس میں عدالتی بینچ میں شامل ججوں کی جانب سے اختلاف تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس بل کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے اس بل کی منظوری کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، وہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے مراحل کا تعین کرنا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے کے دوران پاکستان میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس اختیار کا استعمال کیا گیا، جو اکثر متنازع بھی رہا۔ تاہم کیا وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران چیف جسٹس کے سوموٹو لینے کے اختیار کے بارے میں نہ صرف عدلیہ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا بلکہ حکومت نے بھی اس بارے میں ایک بل پاس کر دیا ہے۔