جی ہاں، ایک اچھی خبر یہ ہے کہ یورپی یونین نے وطن عزیز کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ ملک عزیز کو 2018ء میں اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جس کے بعد پاکستانی کاروباری اداروں اور برآمد کنندگان کو اضافی ریگولیٹری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس پیش رفت کے بعد پاکستانی تاجروں اور کاروباری اداروں کو ان رکاوٹوں کا سامان نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ اور نومبر میں برطانیہ نے بھی ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا تھا لیکن ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے ان مواقع سے بھرپور معاشی فوائد حاصل نہیں کیے جاسکے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ یورپی یونین کی ہائی رسک ممالک کی فہرست سے اخراج کے پاکستان کے یورپی یونین میں تجارتی مفادات میں کیا بہتری آتی ہے اور خاص طور پر جی ایس پی پلس درجے پر اس پیش رفت کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے لیے موجودہ جی ایس پی فریم ورک اس سال ختم ہورہا ہے اور اس میں توسیع پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ جی ایس پی پلس سے یورپی منڈیوں میں پاکستان کی برآمدات میں 65 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائے اور جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی توسیع میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے۔
اور اب آ گے کی بات ، اور وہ یہ کہ بلاشبہ وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ معیشت کو ٹریک پر لایا جائے۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنا پیکیج دینے کا عندیہ دیدیا ہے، لہٰذا معیشت کی حالت بہتر ہوگی تو ملک میں معاشی استحکام آئے گا، روزگار میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی واقع ہوگی۔ حکومت مسلسل زور دے کر کہہ رہی ہے کہ دونوں فریق شرائط طے کرنے کے قریب ہیں، لیکن ملک کو قرض ابھی تک نہیں ملا ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق معاہدہ طے پانے کے بعد بھی افراط زر میں اضافے ہوگا۔ معاہدہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ یک دم سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ رواں سال میں افراط زر کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ نقل و حمل اور خراب ہونے والی خوراک کی قیمتوں میں قریباً پچاس فی صد اضافہ ہوا ہے۔ برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ توانائی کے عالمی بحران اور تباہ کن سیلاب نے معاشی تباہی کو مہمیز دی ہے اور 2022 میں ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر ڈیڑھ ماہ قبل صرف 3.25 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ پاکستان جس معاشی بحران میں پھنس گیا ہے۔ اب اس سے نمٹنے کی صلاحیت اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں دونوں میں نہیں رہی۔ اس بحران میں جو سوچ پیدا کی جا رہی ہے یا پیدا ہو رہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی حکومتیں وہ نہیں کر سکی ہیں، جو انہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ طفیلی معیشت میں وہ کچھ نہیں کر سکتیں، جسے عالمی مالیاتی ادارے اپنی ڈکٹیشن پر چلاتے ہوں۔ سیاسی حکومتیں اس بحران کی ذمے دار بھی نہیں ہیں، جس پر وہ تنقید اور نفرت کی سزا وار ٹھیرائی جاتی ہیں۔
تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت لانے یا مسلم لیگ (ن) کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت لانے یا کسی بھی سیاسی حکومت میں بار بار وزرائے خزانہ تبدیل کرنے سے معیشت درست نہیں ہو گی۔ سیاسی حکومتوں کی جگہ آمرانہ یا مطلق العنان فوجی حکومتیں قائم کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوجی حکومتوں کے ادوار میں قدرے معاشی استحکام رہا ہے لیکن اس عارضی معاشی استحکام یا کسی حد تک سرمائے کی عارضی فراوانی ہی سے اصل تباہی آئی۔ مسئلے کا بتدریج حل صرف جمہوری استحکام ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان کی فوجی حکومتوں کو بہت زیادہ بیرونی امداد ملی ہے۔ یہ امداد پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے نہیں بلکہ سیکورٹی مقاصد کے لیے ملی ہے۔ پاکستان کو امریکا اور اس کے حواری سرمایہ دار ملکوں سے دل کھول کر ڈالرز دیے گئے اور پاکستان پر قرض کا بوجھ بڑھتا رہا۔ اس خوش حالی نے پاکستان کی معیشت کا قومی جوہر ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور ایک قومی معیشت طفیلی معیشت میں تبدیل ہوگئی۔ قومی سرمایہ داری کے بجائے اجارہ دار سرمایہ داری نے جنم لیا۔ صنعت اور تجارت مخصوص لوگوں اور گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ زراعت کو شعوری طور پر ابھرنے نہیں دیا گیا۔ زرعی زمینیں بھی مخصوص لوگوں اور گروہوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ معاشی عدم تقسیم میں اضافہ ہوا۔ صوبوں اور چھوٹے طبقات میں احساس محرومی اور نفرت نے جنم لیا اور سانحہ 16 دسمبر 1971 رونما ہوا۔ بیرونی مدد کے بغیر ملک چلانا مشکل ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف لائف لائن بن کر رہ گیا۔ اس صورتحال سے نکلنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کاروبار دوستی کرے، دشمنی نہ کرے اور کاروبار دوستی کا مطلب ہے کہ کاروباری طبقے کی حفاظت کی جائے، ان کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے تمام سہولتیں فراہم کی جائیں سستی توانائی فراہم کی جائے اور ان کی ہر قسم کی مدد جو بھی ان کو درکار ہے حکومت ان کو فراہم کرے اور اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کی دولت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان اور بہتر بنایا جائے اور کاروبار پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی ہونی چاہیے، اس کے بغیر ملک کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے، جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے ان سب کی حکومتیں بزنس فرینڈلی حکومتیں ہیں، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ہر حکومت میں بزنس مین کو چور ہی سمجھا اور اگر کسی ملک میں یہ صورتحال ہو تو اس ملک میں کاروبار نہیں چل سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں صنعت و حرفت بہت ہی کمزور رہ گئی ہے، ہمیں صنعت خصوصاً برآمدی شعبے پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی برآمدات اس ملک کے رقبے کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر سنگا پور جیسا چھوٹا سا ملک جو رقبے کے لحاظ سے اسلام آباد شہر کے برابر ہے وہ سالانہ بنیادوں پر 140ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ ہمارے تمام ہمسایہ ممالک ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ہمارے لیے یقینا یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ ہمیں اقتصادی طور پر ٹریک پر واپس آنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ نمائشی اقدامات کو ترجیح دی ہے جس کا نقصان قوم کو ہوا ہے۔ ساتھ ساتھ ہم نے زراعت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے، جس کا آج کل کے حالات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ زراعت کی ترقی میں حکومت کی کیا کارکردگی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کارکردگی صفر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ زرعی زمینوں پر تیز رفتاری سے ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جارہی ہیں جس رفتار سے زرعی رقبہ کم ہو رہا ہے جو ہمارے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے اور اگر یہی روش جاری رہی تو کل کو ہمارے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ فوڈ سیکورٹی لازمی ہے اور اس کے لیے درست فیصلہ کرنا لازمی ہے، بڑے زمیندار اور جاگیردارکی نہیں بلکہ کاشتکار کی مدد کی جائے اور اسی طرح ہم اس مخمصے سے نکل سکتے ہیں۔ پورے ریاستی اور معاشی ڈھانچے کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بتدریج اس پر کام کیا جائے، جو اخراجات میں بڑی کٹوتی سے شروع ہو۔ پھر لوگوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور نچلی سطح پر لوگوں کی معاشی سرگرمی پر سرمایہ کاری کی جائے۔ اجارہ دار اور کرونی سرمایہ داری کا خاتمہ، سیاسی طاقت عوام کو منتقل کرنے اور طفیلی پن کا خاتمہ آخری اور بڑے فیصلے ہیں، جو سیاسی اور جمہوری استحکام کے اگلے مرحلے میں ممکن ہوں گے، اگر اب پاکستان پٹڑی سے اترا تو اسے پہلے کی طرح دس بارہ سال کے وقفے کے بعد واپس پٹڑی پر لانا مشکل ہوگا، اس وقت تک شاید ٹریک بھی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ ہمیں ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، خلوص نیت سے کام کریں گے تو ہی کامیابی ملے گی۔