کامیاب لوگ (آخری حصہ)

778

سوال یہ پیدا ہوتا ہے ’’روٹی‘‘ سے اتنی محبت کس نے پیدا کر دی کہ اس کے سامنے زندگی کی بازیاں قطاروں میں لگ کر، ٹرکوں سے لٹک، لٹک کر اور دوسروں کو دھکے دے کر داؤ پر لگائی جا رہی ہیں۔ اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اسکرین پر نظر پڑی ایک صاحب درد مندی سے فرما رہے تھے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں تیس ہزار، پچاس ہزار، ستر ہزار کمانے والے بھی رو رہے ہیں اور یہ زندگی کا مہنگا ترین رمضان ہوگا جس میں پچاس سے ستر، اسی ہزار کمانے والوں کے گھروں میں بھی روزے نہیں فاقے ہوں گے لوگ اپنے بچوں کو سحری میں نہیں اٹھائیں گے کہ ان کے پاس کھانے کو ’’کچھ‘‘ نہیں ہوگا۔ وہ مشہور ومعروف صاحب اس قدر دردمندی سے چیخ چیخ کر ’’خراب حالات‘‘ بیان کر رہے تھے کہ ایک لمحے کو مجھے بھی لگا کہ صحیح تو کہہ رہا ہے بیچارہ بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، مکان کا کرایہ سب دے دلا کر کھانے کو کیا بچے گا؟‘‘۔ مگر ساتھ ہی نظر سے وہ حدیث گزری جس کے مفہوم کے مطابق سحری میں ایک کھجور ہی کھا لیں یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لیں تو اس کی برکت سے دن بھر کا روزہ گزر جائے گا کیونکہ ابن آدم کے لیے تو ایک لقمہ بھی کافی ہو جاتا ہے، اور یہ کہ آج کے دن کا کھانا جس کے پاس موجود ہے وہ غریب نہیں۔
تاریخ کے جھروکوں سے نبی کریمؐ کی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کی سیرت سے مٹھی بھر آٹے کی روٹی سے حسن و حسین و علی کی بھوک مٹتی نظر آتی ہے تو پھر ہمارے لیے ایک تھیلا بھر آٹا بھی کم کیوں پڑ گیا ہے بیروزگار اور بھوکے کا رونا تو سمجھ میں آتا ہے، یہ پچاس سے اسی ہزار کمانے والے بھی کیوں ’’رو‘‘ رہے ہیں۔ یہ ہمارے پیٹ بھروں کے گھروں کی ہوس جہاں ہزاروں کما کر بھی شکر مفقود ہے کہ دسترخوان پر ’’صرف‘‘ دال روٹی تو ہے مگر پکوڑے، دہی بھلے اور پوری پراٹھے نہیں وہیں غریب کے گھر میں بھی یہ نا شکری در آئی ہے کہ جہاں روٹی بھی ’’صرف‘‘ ایک ہے اور آج کے لیے ہے انہیں کل کے کھانے کی فکر فقیر بنا کر زندگی داؤ پر لگوا رہی ہے یہ مہنگائی کے رونے اور روٹی کو خدا بنا کر پیش کرنا اس دجالی دور کا بہت بڑا فتنہ ہے جسے قرآن مجید میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ بھوک اور غربت سے شیطان ڈراتا ہے تو کیا یہ سارے میڈیائی جوکر اور شیطان کے نوکر اس دجالی ٹیم کا حصہ ہیں جو روٹی کو اور روٹی کی کمی کو اتنا بڑھا چڑھا کر شیئر کر رہے ہیں کہ گویا انسانی زندگی کا مقصد ہی حصول روٹی ہے جس کا ذمہ اور وعدہ اللہ پاک پہلے ہی کر چکے آج اسی روٹی کے حصول کے لیے لوگ جان سے جا رہے ہیں یہ جانیں یہ نفس جو حصول جنت کے لیے گروی رکھ کر آئے تھے یہ حصول گندم پر لٹا رہے ہیں روٹی کی خاطر آج جانیں دے رہے ہیں اور روٹی ہی کی خاطر جانیں لے رہے ہیں کسی کے پاس ’’روٹی‘‘ ایک ٹکڑا کسی کے پاس ایک تھیلا اور کسی کے پاس ایک بڑا سا ڈرم موجود ہے مگر وہ مزید کے لیے رو رہا ہے نہ نماز کی فکر نہ آخرت کی کمائی کی ایک ایک برگر اور ایک پلیٹ بریانی پر ایمان و جان کے سودے طے ہو رہے ہیں توکل علی اللہ والے مومنین نجانے کہاں چلے گئے آج انسان ’’اور دو، اور دو‘‘ کی صدا لگانے والے فقیر بن چکے ہیں جو پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے جہنم کا ایندھن بننا پسند کررہے ہیں اور انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرنے والے وہ دجالی میڈیا اور افراد ہیں جو کسی شیطان کی طرح دن کے ہر گزرتے پل میں اسٹاک مارکیٹ، مہنگا سونا اور مہنگی روٹی اور مہنگا آٹا کی برانگیختگی پیدا کرکے اپنے دجالی مقاصد حاصل کر رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سمجھیے اور سمجھا دیجیے کہ روٹی، بوٹی اور آزمائش کی کسوٹی جتنی نصیب میں ہے ملے گی بلکہ مل کر رہے گی بس اس کے پیچھے پڑنے کے بجائے مقدور بھر سعی و جہد کرکے اللہ کے فضل اور مدد کا انتظار کیا جائے جو عنقریب پہنچنے والی ہیں اور اس طرح کی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی پوسٹ اور رویوں سے گریز کیا جائے آپ اتنے ہی اس غریب قوم کے خیر خواہ ہیں تو اٹھیے اور خیرات کے ٹرکوں کی لوٹ سیل میں مرنے والوں کی ریٹنگ کرنے کے بجائے الخدمت کے بنو قابل پروگرام جیسے مواقع فراہم کر کے غریب کی توجہ روٹی کی خاطر رونے کے بجائے روٹی کمانے کے مواقع ڈھونڈنے میں لگا دیجیے تاکہ کسی کو بھی روٹی کی ہوس میں جان نہ دینی پڑے سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھا کر زندگی کو غنیمت سمجھیں اور اس زندگی سے دنیا و آخرت دونوں مقامات کی ’’روٹیاں‘‘ کما لیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی روٹی کے پیچھے مر جانے والے سے قبر کے تین اور میدان حشر کے پانچ سوالات کے جوابات نہ دے کر آخرت کی روٹی ’’جنت‘‘ بھی چھن گئی تو وہ بیچارہ تو بہت خسارے میں رہے گا ناں!!!
اس خسارے سے بچیے اور بچائیے ان میڈیائی دجالوں کو پہچان کر ان کے خلاف جنگ کیجیے انہیں بتا دیجیے کہ ہم حصول روٹی کے لیے نہیں بلکہ حصول جنت کے لیے ہر باطل حکمران، ہر جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے راشن کے تھیلے اور بریانی کی پلیٹ پر نہ جان واریں گے نہ ووٹ دیں گے رزق ہمارا متعین ہے مل کر رہے گا مگر ہم اپنی جانیں اور ووٹ ان کو دیں گے جو نظام مصطفی کا نفاذ کرے گا پھر یہاں بھی سب کو سب کچھ مل جائے گا اور آخرت میں بھی انہیں نہ کوئی رنج ہو گا نہ خوف اور وہی کامیاب قرار پائیں گے۔