فل کورٹ بنایا جائے، جو بھی فیصلہ ہو، سب کو تسلیم ہو گا،رانا ثناء اللہ

219
movement

اسلام آباد:وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے فل کورٹ بنایا جائے جو وہ فیصلہ کرے گی ہم وہ قبول کریں گے،فل کورٹ کا فیصلہ سب کو تسلیم ہو گا۔ ہم یہ تونہیں کہہ رہے کہ فل کورٹ میں حکومتی بندے بٹھا لیں اُس میں برادر ججز نے ہی بیٹھنا ہے، وہ سارے بیٹھ کر فیصلہ کردیں اوراس قضیے کو طے کردیں۔ عمران خان نااہل بھی ہوسکتے ہیں اورووٹ کی طاقت سے مائنس بھی ہوسکتے ہیں۔ 

سیکرٹری دفاع اورسیکرٹری خزانہ کو بھی سپریم کورٹ کی ہی بات ماننی چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ جس ازخود نوٹس کے فیصلے پر عملدرآمد کاآپ ہمیں کہہ رہے ہیں وہ تو خارج ہو چکا ہے اور یہ اقلیتی نقطہ نظر ہے، اکثریت کا نقطہ نظر تویہ ہے وہ خارج ہوچکا ہے۔قانون سازی کے ذریعے میاں محمد نواز شریف کو اپنی سزاکے خلاف اپیل کاحق مل گیا، انہیںاس سے فائدہ اٹھانا چاہیے باقی فیصلہ وہ خودکریں گے مگرمیری رائے یہ ہے کہ ان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان خیالات کااظہار رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ 

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بائیکاٹ کی مختلف جہتیں ہوتی ہیں ہم اپنا مئوقف بلیک اینڈ وائیٹ شکل میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے رکھیں گے اوراس بات کی کوشش کریں گے کہ یہ بینچ جو 9سے7اور7سے5اور5سے4اور4سے3پرآگیا اورتمام ججز نے علیحدہ ہوتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لئے یہ بینچ کارروائی کررہا ہے وہ فیصلہ تو ہے ہی نہیں، وہ ازخود نوٹس تو4/3کی اکثریت سے خارج ہو چکا ہے تو کس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے یہ بینچ کارروائی آگے بڑھا رہا ہے۔ ہمارامئوقف ہے کہ یہ تمام کارروائی غیر قانونی ہے، یہ یکطرفہ ہے اور یہ تعصب پر مبنی ہے۔ 

تینوں جج صاحبان کے لئے ہمارابڑا احترام اور بڑی عزت ہے لیکن ان کے ماضی کے کچھ فیصلے ایسے رہے ہیں جن کے اوپر ہمیں سخت اعتراض ہے ان میں ایک فیصلہ ایسا بھی ہے جس پر ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اعتراض ہے۔ آرٹیکل63-Aکے حوالے سے انہیں معزز جج صاحبان نے فیصلہ کیا ہے، ہر بندہ جسے قانونی کی تھوڑی یازیادہ سمجھ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، وہ بڑاظلم اورزیادتی ہوئی ہے، یہ وجوہات ہیں جس کی بنیاد کے اوپر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس بینچ سے انصاف نہیں مل سکتا لہذا ہم اس کارروائی کاحصہ نہیں بننا چاہتے۔ 

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عدالت کے طلب کرنے پر سیکرٹری دفاع اورسیکرٹری خزانہ عدالت میں پیش ہوں گے مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ہی یہ کہہ رہی ہے کہ یہ جو بینچ کارروائی کررہا ہے یہ غیر قانونی ہے، یہ غیرآئینی ہے اس کی کوئی وقعت نہیں، یہ ا زخودنوٹس خارج ہوچکا ہے۔تین جج ایک بات کہہ رہے ہیں اورچارجج ایک بات کہہ رہے ہیں تو کس کی بات مانی جائے گی، چار کی بات مانی جائے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری دفاع اورسیکرٹری خزانہ کو بھی سپریم کورٹ کی ہی بات ماننی چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ جس ازخود نوٹس کے فیصلے پر عملدرآمد کاآپ ہمیں کہہ رہے ہیں وہ تو خارج ہو چکا ہے اور یہ اقلیتی نقطہ نظر ہے، اکثریت کا نقطہ نظر تویہ ہے وہ خارج ہوچکا ہے۔ہمارا سپریم کورٹ کے ساتھ کوئی ٹکرائونہیں اور نہ کوئی دبائو ہے، سات ججز کا بینچ ہے ان میں چارکاایک فیصلہ ہے ، تین کاایک فیصلہ ہے، ہم کس فیصلے کو تسلیم کریں، اگر اکثریتی فیصلے کو ہم نے تسلیم کیا ہے توکیا یہ محاذآرائی کی ہے۔

فل کورٹ بنائی جائے جو وہ فیصلہ کرے گی ہم وہ قبول کریں گے،فل کورٹ کا فیصلہ سب کو تسلیم ہو گا۔ جو بات ہم کررہے ہیں وہ صرف ہم ہی نہیں کررہے بلکہ یہ بات ججز بھی کررہے ہیں، بارایسوسی ایشنز بھی کررہی ہیں اورسول سوسائٹی بھی کررہی ہے، یہ بات ہم ہی تونہیں کررہے بلکہ ساری دنیا کررہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک آدمی کی جوزد ہے اور جو فتنہ اس ملک کواس نہج پر لے آیا ہے ، اس کی یہ زد کہ میں الیکشن وقت سے پہلے کروانا ہے ، میں نے لانگ مارچ کرنا ہے، میں جلائو گھیرائو کرنا ہے، میں نے احتجاج کرنا ہے، میں اسلام آباد پر حملہ کرنا ہے، میں دوصوبوں سے لوگوں کو لے کر اسلام آباد کو سیل کرنا ہے، میں سمندر لے کر آئوں گا، جب ہر معاملہ پر لوگوں نے اسے مسترد کیا تواُس فتنے نے دواسمبلیوں کو توڑ کر اپنی زد اور اپنی انا کو نبھانے کے لئے کوشش کی ہے کہ وہ وقت سے پہلے الیکشن کروادے۔

آئین کی سپرٹ یہ بھی ہے تمام اسمبلیوں کاالیکشن اکٹھے ہونا چاہیے، آئین کی سپرٹ یہ بھی ہے کہ انتخابات نگران حکومت کے تحت ہونے چاہئیں، آئین کی سپرٹ یہ بھی ہے کہ انتخابات صاف اورشفاف ہونے چاہئیں، یہ انتخابات صاف اورشفاف کیسے ہوسکتے ہیں جب ملک میں نگران حکومت ہی موجود نہیں ہو گی۔اگر دوصوبوں میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو ان میںجو پارٹی حکومت بنائے گی تو پھر آگے عام انتخابات کیسے صاف اورشفاف ہوں گے۔ یہ فتنہ توآنے والے تمام وقتوں کے لئے ملک کو افراتفری اور انارکی کے سپردکرنے جارہا ہے، کیاآئین کی سپرٹ یہ ہے کہ ملک کو دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ 

اُس کی زد اوراِس معزز بینچ کا اس بات کے اوپر بالکل غیرلچکدار رویہ اپنانا کہ ہم نے فل کورٹ نہیں بنانی ، ہم یہ تونہیں کہہ رہے کہ فل کورٹ میں حکومتی بندے بٹھا لیں اُس میں برادر ججز نے ہی بیٹھنا ہے، وہ سارے بیٹھ کر فیصلہ کردیں اوراس قضیے کو طے کردیں۔ 

ایک سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ تحریک چلانے کی عمران خان کی کوئی طاقت ہی نہیں ہے، نہ اُس میں ہمت ہے، اس نے گزشتہ ایک سال کے دوران یہ ساراکچھ کرکے دیکھ لیا ہے۔ عمران خان کا نصب العین یہی ہے کہ یہ ملک افراتفری اورانارکی کے سپردہو، یہ پتہ نہیں اس کا ذاتی ایجنڈا ہے یا پاکستان دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے لیکن وہ چاہتا یہی ہے۔ 

عمران خان بات چیت توکرنا ہی نہیں چاہتاجب بھی بات کی وہ آگے سے گالیاں دیتا ہے کہ ان کی اوقات کیا ہے، ان کے ساتھ بیٹھنے پہلے بہتر ہے میں مرجائوں، وہ توخود کشی کرنے پہ آجاتا ہے اگراسے اپنے مخالفین سے بات کرنا پڑے، وہ غیر جمہوری انسان ہے وہ سیاستدان نہیں۔ یہ ملک اورقوم کی بدقسمتی ہے کہ اس فتنہ نے اس قوم میںجنم لیا ہے اور پھر اس کو پروان چڑھایا گیا ، قوم اس کی شناخت کرے، اس کاادراک کرے اور اسے ووٹ کی طاقت سے مائنس کرے۔ 

عمران خان نااہل بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ جب یہ لوگوں کو گالیاں دے رہا تھا اور انہیں چوراورڈاکو کہہ رہا تھا توخود اپنی فرنٹ مین کے ذریعے اربوں روپے منی لانڈرنگ میں باہر بھیج رہا تھا، توشہ خانہ لوٹ رہا تھا، ایک پراپرٹی ٹائیکون کو 50ارب روپیہ قومی خزانہ کوٹیکا لگاکردے کر اُس سے پانچ ارب روپے کی جائیداداپنے نام کروارہا تھا، یہ نااہل بھی ہوسکتا ہے اورووٹ کی طاقت سے مائنس بھی ہوسکتا ہے۔