ماہ صیام امت مسلمہ کے لیے جہاں انفرادی و اجتماعی عبادات، رحمت مغفرت جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ ہے تو وہاں پر ظلم و ناانصافیوں کے خلاف سینہ سپر اور اسلام کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے کا مہینہ بھی ہے 10 رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام، بدر کے معرکہ سے لیکر غزوات اور اسلامی فتوحات بھی مسلمانوں کو اسی ماہ مقدس میں نصیب ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں مسلمانوں کو بڑی بڑی کامیابیوں سے نوازا ہے۔ سندھ وہ خوش نصیب خطہ ہے جس کو باب الاسلام کا لقب ملا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے پورے برصغیر میں اسلام کی کرنے پڑیں یہ سب کچھ تب ہوا جب 10 رمضان المبارک 93 ہجری بمطابق 20 جون 712 پر نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں اسلامی لشکر نے سندھ کو فتح کرکے اسلامی خلافت میں شامل کیا۔ اسلامی فتوحات اور رمضان کا آپس میں گہرا تعلق رہا ہے اسلامی دنیا کو جو بھی بڑی کامیابیاں و کامرانیاں نصیب ہوئی ہیں وہ زیادہ تر اسی ماہ مبارک میں ملیں۔ سندھ کی فتح بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے سیدنا آدمؑ کے صحیفوں سے لیکر آسمانی کتاب قرآن مجید تک تمام آسمانی پیغام اسی ماہ مبارک میں نازل ہوئے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں اسلام وکفر کے درمیان پہلا فیصلہ کن معرکہ رمضان شریف میں ہوا اور آپؐ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے فتح حاصل اور کفار کو بدترین شکست دی وہ بدر کا معرکہ تھا۔ نبی کریمؐ کے دور میں ایک دوسری بڑی فتح مکہ کی فتح تھی جو بھی 20 رمضان المبارک 98 ہجری میں آپؐ کی زیرقیادت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی دنیا میں اور برصغیر کی تاریخ میں 10 رمضان المبارک 93 ہجری بمطابق 20 جون 712ء کا وہ عظیم دن ہے جس کی شام کو اسلامی لشکر محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کے سابق برہمن بادشاہ راجا داہر کو شکست دیکر اروڑ کے مقام پر اسلامی پرچم لہرایا اور سندھ کو باب الاسلام کے
لقب سے نوازا۔ اسی طرح برصغیر کے دیگر ممالک میں سندھ کے ذریعے سے ہی اسلام کا نورانی پیغام پہنچا اسی لیے ہی سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم سعادت سندھ ہی کو حاصل ہے اس لیے ہر سال پورے ملک اور خاص طور پر سندھ کے مسلمان 10 رمضان المبارک کو کراچی تاکشمور یوم باب الاسلام بھرپور جوش و جذبے اور بڑی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اس تاریخ پر سندھ اسلامی خلافت میں داخل اور دیگر ممالک میں اسلام کے آفاقی پیغام پہنچنے کا ذریعہ ثابت ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سندھ قدیم زمانے میں بھی سیدنا آدمؑ کی آماجگاہ رہا ہے۔ اسی طرح سندھ سیدنا نوحؑ کے پوتوں ہند اور سندھ کا بھی مرکز رہا ہے کہا جاتا ہے کہ اس لیے ہی ان علاقوں پر یہ نام پڑے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کا غیر عربی زبان یعنی سندھی زبان میں ترجمہ سندھ کے شہر منصورہ میں 270 ہجری 884 میں ہوا۔
خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے دور میں کچھ عرب مسلمان تاجر سراندیپ میں انتقال کر گئے تھے جن کے خاندان کو وہاں کے راجاؤں نے بحری جہازوں پر بٹھاکرخلیفہ عبدالمالک کے لیے تحفہ تحائف دیکر عربستان کی طرف روانہ کیا۔ جب یہ قافلہ بندر گاہ دیبل پہنچا تو وہاں کے عملداروں کی شرارت سے ڈاکوؤں نے ان کو لوٹا اور مسافروں کو قید کیا۔ ان مسافروں میں ایک قیدی عورت نے تین مرتبہ ’’اغثنی یا خلیفہ‘‘ پکارا، یعنی اے ہمارے خلیفہ! ہماری داد رسی کرو۔ خلیفہ ولید نے حجاج بن یوسف ثقفی کے ذریعے سندھ کے راجا داہر برہمن سے خط و کتابت کی اور مسافروں کی مدد کے لیے لکھا۔ راجا داہر نے اس خط کا جواب غیر مناسب دیا کہ ’’دیبل کے ڈاکو میرے حکم سے باہر ہیں‘‘ اس کے بعد حجاج بن یوسف نے خلیفہ سے اجازت لیکر محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک مضبوط لشکر روانہ کیا۔ وہ لشکر حب ندی سے آکر سندھ میں داخل ہوا سب سے پہلے دیبل بندر پر حملہ کرکے قافلے کے مسافر آزاد کرائے اور مال غنیمت مرکز کی طرف روانہ کیا۔ محمد بن قاسم نے دیبل پر ناظم مقرر کرکے نیرون کوٹ (حیدرآباد) کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا، نیرون کوٹ فتح کرنے کے بعد سیہون فتح کیا اس کے بعد مسلمانوں کے لشکر نے راجا داہر کے دارالحکومت اروڑ پر حملہ کیا بڑی جنگ کے بعد آخر کار دس رمضان 93 ہجری کو راجا داہر مارا گیا اور اروڑ پر مسلمانوں کے لشکر نے قبضہ کرکے سندھ کی فتح کا اعلان کیا۔ اروڑ کے مقام روہڑی ضلع سکھر میں تاریخی مسجد کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ اس دوران سندھ کی قدیم قوموں چنا اور سما قبیلوں نے اسلام قبول کرکے اسلامی لشکر کا استقبال کیا۔
تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ سندھ میں سب سے پہلے ابن قاسم کو خوش آمدید کرنے والی برادری چنا قوم نے اسلامی لشکر کا جنگی سامال اور طریقہ کار جانچنے کے لیے اپنے کچھ مخبر بھیجے، اتفاق سے اس وقت محمد بن قاسم کی امامت میں اسلامی لشکر نماز ادا کر رہا تھا۔ رکوع اور سجدے میں منظم انداز کی رپورٹ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو دی کہ وہ ایسے منظم و متحد ہیں کہ ایک آدمی ان کا سربراہ کہتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتا ہے بیٹھ جاؤ تو ایک اشارے پر لیٹ جاتے ہیں تو پھر چنا قبیلہ میں طے پایا کہ یہ بہت منظم لوگ ہیں ان سے جنگ نہیں کی جائے اسی طرح چنا قبیلہ نے سب سے پہلے محمد بن قاسم کو خوش آمدید کہا اور اسلام قبول کیا۔ دراصل سندھ کے عوام کا تعلق زیادہ تر بدھ مذہب سے تھا برہمن سامراج بدھ مت والوں پر زیادہ سختیاں کی تھیں، اس لیے سندھ کے عوام برہمن سے تنگ آچکے تھے جو اسلامی لشکر کا استقبال کرنے لگے۔ سندھ میں اسلامی انقلاب آنے کی وجہ سے لوگوں کو بتوں کی پوجا کرنے سے نجات اور وہ ایک خدا کی عبادت کرنے لگے۔ ذات پات کی بناء پر جو سماجی ظلم تھا اس سے نجات اور مساوات و برابری کی فضا قائم ہوئی۔ اونچ نیچ کا نظام ختم، غریب امیر اعلیٰ و ادنیٰ کا فرق بھی ختم ہوگیا۔ ہزاروں بتوں کے آگے جھکنے کے بجائے ایک اللہ تعالیٰ کے اگے سر بہ سجود ہونے لگے۔ اہل سندھ کو اسلام کا سیاسی سماجی مذہبی ثقافتی اور اخلاقی نظام ملا۔ جس کو سندھ نے آج تک اپنے سینے میں سمایا ہوا ہے۔ اس بابرکت مہینے میں ہم یوم باب الاسلام مناکر محمد بن قاسم اور ان کے ساتھیوں کے کارناموں و قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ برصغیر میں اسلام کے پھلنے میں سندھ دروازہ اور باب ثابت ہوا۔ محمد بن قاسم سندھ و ہند کو فتح کرنے کے بعد یہ اعلان کرتے تھے کہ ’’جو لوگ خوشی سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو ان کے حقوق عرب مسلمانوں جیسے ہوں گے وہ ہر قسم کے ٹیکس و جزیہ سے بالاتر ہوں گے۔ جو لوگ اپنے آبائی مذہب و دھرم پر قائم رہیں گے ان سے کوئی دست درازی نہیں ہوگی اور ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی مگر ان پر جزیہ کی ذمے داری عائد ہوگی۔ محمد بن قاسم کی اسلامی حکومت نے سندھ و ہند کے باشندوں کو بے شمار سہولتیں دیں جن میں ہندو برہمنوں کو جو گزشتہ حکومتوں کو رعایتیں ملی ہوئی تھیں وہ بحال رکھی گئیں۔ مندروں کے لیے جو اوقات مقرر تھے وہ قائم رکھے گئے۔ اسلامی حکومت کی جانب سے برہمنوں کے لیے اعزاز و وظیفے مقرر کیے گئے۔ عملداروں کو عہدوں پر بحال رکھا گیا اسی طرح کی دیگر بے شمار سہولتیں اور رعایتیں شامل تھیں یہی وجہ تھی کہ جب محمد بن قاسم واپس جارہے تھے تو یہاں کے ہندو افسردہ تھے ان سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں بناکر باقاعدہ ان کو پوجتے تھے۔
آج اہل سندھ کی اکثریت کے خیالات اور سوچ کے بالکل برعکس ایک گم کردہ راہ ٹولہ بلاسبب ہی ابن قاسم کے خلاف واہی تباہی بکتا اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کرتا دکھائی دیتا ہے اس منفی سوچ کے حامل اقلیتی ٹولے کو ماضی میں اہل سندھ نے کوئی پزیرائی بخشی ہے اور نہ ہی حال میں اسے پسند کیاجاتا ہے۔ دانا اور بینا اہل سندھ حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہیں اس لیے وہ کسی دور میں بھی ان کے منفی پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوئے اور ان شاء اللہ نہ ہی کبھی مستقبل میں ہو سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ یومِ باب الاسلام سندھ میں اسلامی حکومت کے قیام کا دن ہے، برصغیر کی تاریخ میں 10رمضان کی بڑی اہمیت ہے، پاکستان کی بنیادیں 10رمضان کو پڑیں جب محمد بن قاسم کی آمد پر سندھ کو باب الاسلام کا درجہ ملا، سندھ کے لوگ مسلمان ہوئے اور اجتماعی معاشرے کی طرف پیش قدمی ہوئی۔ مسلم سپہ سالار، محمد بن قاسم ایک مظلوم بہن کی پکار پر سندھ آکر نہ صرف اس کو ظالم حکمران سے آزادی دلائی بلکہ سندھ میں ظلم وجبر اور بادشاہت کا نظام ختم کرکے اسلامی اصولوں پر مبنی پہلی اسلامی حکومت قائم کی۔ آج فلسطین سے لیکر کشمیر تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ہر طرح سامراجی قوتوں اور ان کے آلہ کار ٹولے نے ظلم و درندگی کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس لیے ایک بار پھر دنیا کو محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالاروں کی ضرورت ہے جو ظالموں اور ظلم کے اس نظام کو ختم کرکے عدل وانصاف کا اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کریں۔ آج ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ 10 رمضان یوم باب الاسلام کو سرکاری سطح پر مناکر نسل نو کو سندھ کی اسلامی تایخ، سندھ کے ذریعے سے برصغیر میں اسلام کے نور کے پھلنے اور محسن سندھ محمد بن قاسم کے کردار سے آگاہ کیا جائے۔
بقول صحافی ادیب دانشور مولانا خیر محمد نظامانی کہ
سند مدینو ساریو، آیو جتان قرآن
آیا عرب پارکان، جنگی مرد جوان
پھتا اچی پھلوان، کلمی ئٍ قرآن سان