ملا نصیر الدین سے منسوب ایک قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن ملا اپنا گدھا چھت پر لے گئے۔ اس کو کافی دیر چھت پر گھمایا پھریا لیکن جب اُسے اُتارنا چاہا تو کدھے نے اُترنے سے صاف انکار کر دیا۔ ملا نے بہت زور لگایا، تھپڑ بھی مارے لیکن وہ اپنی اڑ پر ہی ڈٹا رہا۔ تھک ہار کر ملا گدھے کو اس آسرے پر چھت پر چھوڑ آئے کہ ممکن ہے گدھا ان کو نہ پاکر خود ہی چھت سے اُتر آئے لیکن کافی دیر گزر جانے کے باوجود گدھا چھت سے نیچے نہیں آیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں، انہیں ایسا محسوس ہوا کہ گدھا زور زور سے اپنی لاتیں چھت پر مار رہا ہے۔ ملا یہ جان کر گھبرا گئے اس لیے کہ چھت بہت کمزور سی تھی۔ انہیں ڈر ہوا کہ کہیں چھت ٹوٹ ہی نہ جائے۔ وہ گھبرا کر چھت پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ گدھا زور زور سے اپنی لاتیں چھت پر مار رہا ہے۔ انہوں نے گدھے کی رسی کو زور لگا کر کھینچا تاکہ گدھے کو اس کی حرکت سے باز رکھ سکیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ گدھا اسی طرح پوری قوت سے اپنے لاتیں چھت پر مارتا رہا۔ ملا نے رسی چھوڑی اور گدھے کو دھکا دینے کی کوشش کی تو گدھے نے ان کے بھی ایک زوردار دولتی جڑ دی جس کے نتیجے میں ملا دور جا گرے۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ چھت ٹوٹ گئی۔ چھت کے ٹوٹتے ہی چھت اور گدھا دونوں نیچے جا پڑے۔ گدھے کی اس ساری کارروائی سے ملا نے تین نتائج نکالے۔ اول تو کسی گدھے کو اوپر کسی مقام پر کبھی نہیں لانا چاہیے۔ دوم اگر گدھے کو کوئی اونچے مقام پر لے آیا بھی گیا تو وہ اسے اپنے کرتوتوں سے تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا، تیسرا اور آخری نتیجہ یہ اخذ کیا کہ گدھا اپنے لانے والے کو سب سے پہلے لات مار کر گراتا ہے۔
موجودہ سیاسی، معاشی اور آئینی بحران کو پیش ِ نظر رکھا جائے تو ملا نصیر سے منسوب یہ قصہ بیان کرنے کے بعد کچھ مزید کہنا غیر ضروری سا ہو جانے کے باوجود نہ جانے کیوں بہت کچھ بیان کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ جب بات قصوں ہی کی چل نکلی ہے تو ایک اور قصہ سنانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی کنوئیں میں ایک کرنل صاحب جا گرے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کے چند سپاہی بھی تھے۔ انہوں نے فوراً ایک رسی کا بند وبست کیا اور کنوئیں میں ڈال کر کرنل صاحب سے کہا کہ وہ اس کے سرے کو مضبوطی سے تھام لیں۔ کرنل صاحب نے ایسا ہی کیا۔ سپاہیوں نے زور لگا کر انہیں کنوئیں سے باہر نکالا ہی تھا کہ ان کی شکل نظر آتے ہی سپاہیوں نے یک دم رسی کو چھوڑ کر جیسے ہی سلوٹ مارا، کرنل صاحب واپس کنوئیں میں جا گرے۔ دو تین بار ایسا ہوا تو ایک سیانے سپاہی نے کہا کہ بیوقوفو جاؤ کسی برگیڈیئر کو بلا کر لاؤ۔ چنانچہ دوڑ بھاگ کرکے ایک دو برگیڈیئروں کو لے کر آیا گیا۔ انہوں نے زور لگا کر کرنل کو کنوئیں سے نکال لینے کی کامیاب کوشش کی ہی تھی کہ جیسے کرنل صاحب کی نظر برگیڈیئروں پر پڑی، رسی چھوڑ چھاڑ جو سلوٹ مارا دھڑ سے واپس کنوئیں میں جا گرے۔ تھوڑی دیر بعد کرنل صاحب کی کڑک دار آواز آئی کہ بد بختوں کسی سویلین کو لے کر آؤ۔
اقتدار کی کرسی پر گدھوں کو لانے اور پھر اُتار کر ذلیل کرنے کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے لیکن پہلی مرتبہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ ملا نصیر کے تینوں کے تینوں نتائج پورے ہوئے ہوں۔ چھت پر لے جانے کے بعد بے شک گدھے خوشی سے کبھی نہیں اُترے لیکن زبردستی پکڑ دھکڑ سے کام ضرور چلتا رہا۔ یہ بھی ہوا کہ اُتارنے والوں کے خیال کے مطابق جس مقام پر ان کو پہنچایا گیا اسے لاتیں مار کر گدھوں نے نقصان بھی پہنچایا لیکن جواب میں کسی لانے والے کو لاتیں نہیں کھانا پڑیں۔ لیکن اس مرتبہ تخت بھی ٹوٹا، گدھا بھی بہت زور سے نیچے گرا اور لانے والے کو نہ صرف لاتوں پر لاتیں پڑیں بلکہ یہ سلسلہ اب تک نہایت شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔
واقعہ یہی ہے کہ کسی بھی تخت تک پہنچنے والے کو کبھی ٹک کر کام کرنے ہی نہیں دیا گیا خواہ وہ عسکریت سے تعلق رکھتا ہو یا سویلین میں سے۔ ایوب خان کو انہیں کے پیٹی بند بھائی نے پچھاڑا پھر وہ خود بظاہر ایک سویلین کے ہاتھوں ذلیل ہوئے۔ پھر وہی سویلین وردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایک اور وردی والا پہلے ایک سویلین کو خود منتخب کر کے لایا اور پھر ریت کے گھروندوں کی طرح اسے ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ بعد میں وہ خود بھی ملکی یا بین الاقوامی سازش کا شکار ہوگیا۔ پھر کنوئیں میں سے آوازیں پر آوازیں آتی رہیں کہ کم بختوں سویلین کو بلاؤ۔ آنیاں جانیاں لگتی رہیں لیکن کرنل صاحب کنوئیں میں بار بار گرتے رہے۔ ایک بار پھر خاکیت غالب آئی لیکن ان کے دور میں بھی یہی صدا آتی رہی کہ کم بختو خواہ باہر کے ملکوں سے کوئی سویلین کیوں نہ بلانا پڑے لاؤ اور مجھے کنوئیں سے نکالو۔ پھر حکومت کرنے والوں نے نہ صرف کرنل کو کنوئیں سے نکالا بلکہ ایسا نکالا کہ وہ کبھی ملک میں واپس نہ آ سکا۔
کنوئیں سے نکالے جانے اور بار بار گرتے اور گرائے جانے کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو گیا کہ اب ریاست کا ایک ستون بھی محفوظ نظر نہیں رہا۔ کیا عدالتیں اور ان کے ججز، کیا عسکری ونگ اور ان کے کپتان، کیا سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنما اور کیا پاکستان کا آئین اور قانون۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس بری طرح مصروف ہیں کہ الاماں الحفیظ۔ لگتا ہے کہ تسبیح کا دھاگا بس ٹوٹا ہی ٹوٹا (ہزار بار خدا نخواستہ)۔ اب آسمان ہی کوئی معجزہ دکھائے تو دکھائے لیکن جو حالات ہیں وہ کوئی اچھے اشارے نہیں دے رہے ہیں۔