دونوں ہی کھانسنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہیں

680

ماضی میں عجیب عجیب حکیم ہوا کرتے تھے۔ لیبارٹریاں تو ہوتی نہیں تھیں کہ آلات کی مدد سے دوائیں بنائی جاتیں۔ مختلف جڑی بوٹیوں کے اشراک سے ایسے نسخے بناتے تھے جو تیر بہدف ثابت ہوتے۔ اس دور کے حکما کو بھی بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ ایسے افراد جو ان کی تشخیص سے مطمئن نہ ہوتے یا شراتی ذہن رکھنے کی وجہ سے حکیموں کو آزمائش میں ڈالنا چاہتے تھے وہ ان کو لازماً آزمائش میں ڈالا کرتے تھے۔ سنا ہے کہ ہندوستان کے ایک حکیم صاحب صرف اور صرف یورین کے نمونے لیکر نسخوں اور غذاؤں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ یہی ان کی وجہِ شہرت بھی تھی اور مریضوں کے لیے شفا بھی۔ کسی شری مزاج والے نے ان کے پاس گائے کے یورین کا نمونہ بطورِ شرارت بھجوا دیا۔ مقررہ وقت پر جب وہ اس نمونے کے مطابق حکیم کے نسخے کا پرچہ لے کر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پر نہ صرف گائے کے یورین کی پوری تفصیل درج تھی بلکہ گائے کے لیے کچھ نسخے اور کئی قسم کے چارے بھی تجویز کیے گئے تھے جس کو استعمال کرکے گائے کے دودھ کی مقدار اور اس کی صحت کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
یہ تو تھے ایسے حکیم جن کو کسی لحاظ سے بھی ’’نیم‘‘ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سچ ہے کہ آج کل کے بے شمار ڈاکٹروں کی طرح پرانے زمانے میں بھی ’’نیموں‘‘ کی تعداد کچھ کم نہ تھی لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے ’’شرارتی‘‘ حکیم کسی دور میں بھی نہیں دیکھے گئے تھے اور نہ ہی ایسے حکیم جو کردار کے لحاظ سے کمزوری کا شکار ہوں۔ پرانے زمانے کی حکمت کیونکہ سینہ بہ سینہ ہی منتقل ہوا کرتی تھی اس لیے اس زمانے میں ہر حکیم اپنی اولاد یا شاگردوں میں سے اچھے کردار والے فرد ہی کو منتخب کیا کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ آج کل کے ڈاکٹروں یا معاون عملے کی طرح مریضوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا کرتا تھا۔ جب سے حکمت ڈاکٹری کی طرح مکتبوں اور مدرسوں میں پڑھائی جانے لگی، وہ ضمانت ختم ہو گئی جس میں عزتوں اور آبروؤں کے تحفظ کا یقین ہوا کرتا تھا۔ ایسے ہی جدید دور کے ایک حکیم کے پاس ایک مریض بڑی پریشانی کے ساتھ حاضر ہوا اور بیان کرنے لگا کہ حکیم صاحب کئی دن سے کھانس کھانس کر بہت برا حال ہو گیا ہے۔ نہ رات کو چین ہے اور نہ ہی دن کو سکون۔ کھانسنے سے فرصت ملے تو نیند بھی پوری کر سکوں اور روز مرہ کی ذمے داریاں بھی ادا کر سکوں۔ یہ سب احوال وہ کھانس کھانس کے سناتا رہا جس سے اس کی تکلیف کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ جدید دور کے شراتی حکیم نے اس کی ساری باتیں بظاہر نہایت توجہ سے سنیں اور پھر اپنے پاس کام کرنے والے شاگرد کو بلا کر مختلف جڑی بوٹیوں
کے جار لانے کو کہا۔ وہ شاگرد ان کے پاس کافی عرصے سے کام کرتا آ رہا تھا اور فطرتاً نہایت شریف بھی تھا وہ ان کے بتائے ہوئے سارے جار، حکیم صاحب کے پاس لے آیا۔ اس کے چہرے سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ غیر مطمئن سا ہے لیکن پاسِ ادب روکنے ٹوکنے میں مانع ہے۔ حکیم صاحب نے ہر جار میں سے اپنے لحاظ سے جڑی بوٹیاں منتخب کر کے یکجا کیں، ایک پڑیا میں بند کرنے کے بعد مریض سے کہا کہ گھر جاکر ان سب کو ایک برتن میں پانی ڈال کر خوب اچھی طرح چار پانچ اُبال دینا اور جب چھان لینے کے بعد پانی اتنا ٹھنڈا ہو جائے کہ آسانی سے پیا جاسکے تو پی لینا۔ مریض ان کی فیس ادا کرکے گھر روانہ ہو گیا تو شاگرد سے نہ رہا گیا اور اس نے نہایت ادب سے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ جناب آنے والے مریض نے تو یہ بتایا تھا کہ اُسے شدید کھانسی ہے لیکن آپ نے اس کے لیے کھانسی کو آرام پہنچانے کا نسخہ تجویز کرنے کے بجائے اسہال لانے کا نسخہ کیوں دیدیا۔ کہیں آپ سے کوئی بھول تو نہیں ہو گئی۔ یہ سن کر حکیم صاحب مسکرائے اور شاگرد کو آنکھ مار کر بولے کہ میں نے غلط نہیں کیا۔ اب وہ کھانسنے سے پہلے سوبار سوچے گا۔ یہ سن کر شاگرد اپنے سچے پیشہ ورانہ مزاج کی وجہ سے غصہ اپنے اندر ہی پی گیا لیکن اپنے دل میں ایک بات اچھی طرح ٹھان لی۔
پاکستان کی سیاست میں 6 دہائیوں سے بھی کہیں زیادہ جن حکیموں کا عمل دخل صاف دیکھا جا سکتا اب وہ کسی کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے والے حکیم کسی حد تک شریف النفس ہوا کرتے تھے۔ مارکیٹ میں بے شک اپنے سے بڑا کسی اور کو نہیں دیکھ سکتے تھے اور اگر کوئی اپنی قابلیت و اہلیت کی وجہ سے شہرت حاصل کرنا شروع کر دیتا تھا تو اس کی ٹانگیں کھینچ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ وہ دواخانے پر خواہ بنفس ِ نفیس بیٹھا کرتے تھے یا کسی کو آگے کردیا کرتے تھے، کسی حد تک مریضوں (عوام) کا خیال ضرور رکھا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی حکمت جدید دور میں کچھ اس طرح داخل ہوئی کہ وہ کھانسی کے علاج کا نسخہ دینے کے بجائے دست آور نسخہ دینے پر اُتر آئے تاکہ کھانسنے والا ہر دو طرح گرفتار اذیت ہو جائے لیکن اس مرتبہ قدرت (شاگرد) سے برداشت نہیں ہو سکا اور اس نے نہایت خاموشی کے ساتھ حکیم صاحب کو بھی ایسا نسخہ پلادیا کہ نہ کھانسی رکنے کا نام لے رہی ہے اور نہ ہی اسہال۔ جس مریض کو وہ کرسی اقتدار پر بٹھانے کا نسخہ دینے کے بعد اتار نے کا نسخہ پلا بیٹھے تھے اسی مریض نے ان کا جینا ایسا حرام کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ کھانسے بھی جا رہا ہے اور لوٹا پریڈ بھی جاری ہے۔ اب دونوں ایک جیسی مشقوں میں مصروف ہیں یعنی کھانسنے سے پہلے لوٹا مضبوطی سے پکڑ کر رکھو۔ دعا یہ ہے کہ دونوں کی کھانسیوں اور لوٹا پریڈوں کے نتیجے میں کہیں دواخانے کے حصے بخرے نہ ہو جائیں۔ لگتا یہ ہے کہ اب سوائے اللہ، شاید ہی کوئی دواخانے کو تختہ تختہ ہونے سے بچا سکے۔