چین کی ثالثی میں گزشتہ دنوں کیے گئے معاہدے کی بدولت سعودی عرب اور ایران نے نہ صرف سفارتی تعلقات کی بحالی پر آمادگی ظاہر کی ہے بلکہ دونوں ممالک نے اپنی روایتی دشمنی کو بھی کافی حد تک کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اچانک اور حیران کن اقدام کو وسیع پیمانے پر امریکا کے مقابلے میں عالمی سطح پر چین کے سافٹ امیج کو تقویت دینے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات اس وقت ختم ہو گئے تھے جب سعودی حکومت نے ممتاز شیعہ عالم اور حکومت کے ناقد نمر باقر النمر کو 2016 میں سزائے موت دی تھی۔ اس کے بعد ایران کے اندر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جس کے دوران تہران میں واقع سعودی سفارتی مشن کو بھی مشتعل مظاہرین نے نقصان پہنچایا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے نہ صرف تہران میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان یمن اور شام کی جنگوں کے پس منظر میں پراکسی جنگیں بھی جاری تھیں۔ گزشتہ جمعے کے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کو سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی تعاون کے انتظامات کو فعال کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ منظر عام پرآنے والی تفصیلات کے مطابق اس معاہدے میں باہمی پروپیگنڈے کو ختم کرنے اور جنگ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک دوسرے کے مفادات پر براہ راست اور بالواسطہ حملے نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب نے سعودی فنڈ سے چلنے والے فارسی زبان کے سیٹلائٹ نیوز چینل ایران انٹرنیشنل کو لگام دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس پر تہران نے ایران میں کئی مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام لگانے کے علاوہ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے اس چینل کو دہشت گرد ادارہ بھی قرار دیا ہے۔ اس چینل کو لگام دینے کے بدلے میں ایران نے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر سرحد پار حملوں کو روکنے پر اتفاق کیا ہے جو ملک کے اکثر علاقوں پر قابض ہیں اور 2015 سے سعودی زیر قیادت فوجی اتحاد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو بیجنگ کے ایک اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے اس معاہدے کو ایک بڑی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین عالمی مسائل کو حل کرتا رہے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ چین نے ممالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں چین کی یہ بڑی سفارتی کامیابی اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکا یوکرین میں روس کے خلاف اپنی جنگ کو بڑھا رہا ہے اور ایشیا میں بیجنگ کے ساتھ تنازع کی تیاریوں کو مزید تیز کر رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان حال ہی میں طے پانے والامعاہدہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ واضح رہے امریکی انتظامیہ نے سعودی ایران ڈیل پر بظاہر خاموش ردعمل دیا ہے تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے کردار سے کسی بھی صورت دست بردار نہیں ہوگا۔
دوسری جانب امریکی میڈیا اس پیش رفت پر کچھ زیادہ ہی سیخ پا نظر آتا ہے جس میں اس معاہدے کو چین کی فتح اور امریکا کی مات سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے چین امریکا پر بازی لے جا نے میں کامیاب ہوگیا ہے جس سے وہ یعنی چین تیل کی دولت سے مالا مال اس خطے میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر امریکی تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے بہانے اس پر معاشی پابندیاں لگا رہے ہیں تو دوسری جانب واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلتوں میں ہمیشہ سعودی حکمرانوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات پر انحصار کیا ہے۔ تاہم، گزشتہ جولائی میں جوبائیڈن کے ریاض کے دورے کے بعد سے امریکا اور سعودی تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے۔ تین ماہ بعد اوپیک نے تیل کی قیمتوں کو بلند رکھنے کے لیے مبینہ طور پر سعودی عرب اور روس کے ساتھ مل کر ایک انتظام میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کردی تھی جب کہ سعودی عرب یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہ کر کے بھی واشنگٹن کی پریشانی میں اضافے کا باعث بنا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب کے اس اقدام کے ردعمل کے طور پر یمن کی جنگ میں امریکی فوجی حمایت ختم کر کے ہتھیاروں کی فروخت کو محدود کر دیا تھا اور ساتھ ہی سویلین نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے میں مدد کی سعودی اپیلوں کا جواب نہ دے کر بھی سعودی عرب کو ناراض کر دیا تھا۔ تیسری جانب چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دسمبر میں ریاض میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اس سال ایران کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کے بیجنگ میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی تجویز پیش کی تھی جس کا نتیجہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ معاہدے کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کے بارے میں یہ بات بلا کسی شک وتردد کہی جاسکتی ہے کہ یہ معاہدہ مستقبل میں علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دینے میں کافی حد تک ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے البتہ یہ امید باندھے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اور اسرائیل اس معاہدے یا اس کے نتیجے میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ مثبت پیش رفت کو کسی بھی صورت برادشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔