!دو مہمان

468

مہمان نوازی کیا ہوتی ہے، کوئی ہمارے ہردلعزیز دوست قوی (ذوالقرنین) سے پوچھے، جوں ہی پتا چلاکہ بڑے بھائی کی فیملی امریکا سے کراچی آرہی ہے، لگے گھر کو سجانے سنوارنے، جن کمروں میں مہمانوں کا قیام تھا اُنہیں تو کلر کروایا ہی، ساتھ پورے گھر کو رنگوا ڈالا۔ فرنیچر کی حالت کچھ مخدوش محسوس ہوئی تو لگے ہاتھ اُسے بھی بدلوا دیا۔ کمروں میں لگے Air Conditioners اور گھر میں کھڑی گاڑی کی پرفارمنس کچھ مشکوک محسوس ہوئی تو اُسے بھی حوالہ مکینک کردیا گیا۔ یوں تو گھر کے کچن میں کھانے، پینے کی اشیاء مناسب مقدا ر میں موجود تھیں پھر بھی مہمانوں کی پسندیدگی کا خیال رکھتے ہوئے ضروری انتظامات کر لیے گئے تھے۔ مہمان آئیں اور ’’رت جگے‘‘ نہ ہوں، ایسا کیسے ممکن تھا!! چنانچہ نہ صرف بہترین قسم کے خشک میوہ جات کی وافر مقدار میں خریداری کی گئی تھی بلکہ ماحول کو مزید پُرلطف بنائے جانے کے لیے، (بڑوں کے لیے) غزلوں اور (چھوٹوں کے لیے) کارٹون فلموں کی سی ڈیز منگوا لی گئی تھیں، غرضیکہ کسی بھی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی۔ پھر مہمان آئے، پورے تیس دن رہے، گھومتے پھرتے، ہنستے مسکراتے، تھوڑا سوتے اور بہت سا جاگتے،، ایک مہینہ کیسے گزر گیا، پتا ہی نہیں چلا۔ پھر وقت رخصت آیا، مہمان جب واپس امریکا جانے لگے تو بہت خوش تھے، بہت مطمئن اور پرُسکون، بھلا کیونکر نہ ہوتے، قوی اور اس کے گھر والوں نے مہمان نوازی کی تمام تر ذمے داریوںکو بہ احسن و خوبی نبھایا تھا، مہمانوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہیں ہونے دی تھی، ہر دم اُن کا بھر پور خیال رکھا تھا۔ یہ سب دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلی کہ اے خدا ہمیں بھی بہترین مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما (آمین)۔
***
’’حضرات: رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے، کل پہلا روزہ ہوگا‘‘ مساجد سے رویت ِ ہلال کے اعلانات ہو رہے تھے۔ عشاء کی نماز سے واپسی پر اہل محلہ اور گھر والو ں سے مبارکباد کا سلسلہ تھما تو سوچا کچھ دیر قوی کی طرف ہوآیا جائے، گھر قریب ہونے کے باوجود کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی، آج موقع تھا کہ ماہ ِ رمضان کی مبارکباد بھی دے دی جاتی اور خیریت بھی دریافت ہو جاتی، بس یہی سوچ کر قدم اُس کے گھر کی طرف بڑھا دیے۔ گھر پہنچنے پر قوی نے پر تپاک استقبال کیا، اُس کے چہرے پرآئی رونق دیدنی تھی، صحت بھی پہلے سے بہت بہتر لگ رہی تھی، سلام دعا اور حال احوال کے بعد باقاعدہ بات، چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔
’’اور سنائو قوی! رمضان میں تو آفس کے اوقاتِ کار کم ہو گئے ہوں گے، اب تو واپسی جلد ہی ہوجایا کرے گی‘‘۔
’’ٹائمنگ کا تو کچھ خاص پتا نہیں کیونکہ میں نے تو آفس سے ایک ماہ کی رخصت لے رکھی ہے‘‘
’’اچھا… وہ کیوں، سب خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہاں سب خیریت ہی ہے۔ صدیقی سچ پوچھو تو مجھ سے روزے رکھ کر آفس نہیں جایا جاتا، عجیب نقاہت سی رہتی ہے، متلی کی کیفیت میں رہتے سارا دن، کسی کام میں دل نہیں لگتا‘‘ (چالیس سال کی عمر میں اچانک رمضان کے موقعے پر پیدا ہوجانے والی یہ کمزوری سمجھ سے بالا تر تھی)
’’لیکن گھر میں رہ کر بھی تو تم بور ہی ہوجائو گے‘‘ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا
’’آں… نہیں شاید وقت گزرنے کا اتنا پتا نہ چلے‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پر تجسس انداز میں دریافت کیا
’’بھائی! دن بھر کوئی کام کاج تو ہوگا نہیں، تو سوچا ہے کہ فجر پڑھ کر سو جائوں گا، اور پھر جب شام کو سو کر اُٹھوں گا تو عصر سے پہلے ظہر کی نماز بھی پڑھ لوں گا‘‘
’’کیا مطلب!! تم صبح سے شام تک سوتے ہی رہو گے‘‘ میں نے کافی حیرانگی سے پوچھا تھا
’’تو خامخواہ جاگ کر کرنا بھی کیا ہے‘‘ جواب انتہائی معصومانہ تھا
’’اور عصر کے بعد کا کیا پروگرام ہے؟؟ کیا پھر سو جائو گے‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں طنز اُمڈ آیا تھا
’’ارے نہیں یار، عصر سے مغرب کا وقت تو صرف دیکھنے، دیکھنے کا ہوتا ہے، اور پھر بازار جا کر اپنے لیے افطار کا سامان بھی تو لانا ہوتا ہے‘‘
’’کیوں؟؟ گھر میں کچھ نہیں بنتا؟‘‘
’’اب مجھ اکیلے کے لیے بھلا کیا بنے گا بھائی!‘‘
’’اکیلے کیوں؟؟ بھابھی اور بچے بھی تو ہیں‘‘
’’ارے بھائی (وہ چائے کا کپ مجھے تھماتے ہوئے گویا ہوا) تم تو جانتے ہی ہو بھابھی تمہاری شوگر کی مریضہ ہیں اس لیے روزے نہیں رکھتیں، اور بچوں کا تو پوچھو ہی مت، ہر تین، چار گھنٹے بعد اگر کھانے کو کچھ نہ ملے تو بس آپے سے ہی باہر ہو جاتے ہیں‘‘
’’تو سمجھائو اُنہیں، کچھ احساس دلائو!!‘‘
’’بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ لاکھ سمجھایا، بُجھایا لیکن مجال ہے جو کچھ سُن لیں، اب تومیں نے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے‘‘ قوی نے نہایت صفائی سے اپنا دامن بچایا۔
باقی صفحہ7نمبر2
کاشف شمیم صدیقی
’’قوی… میں نے سوچا ہے کہ اس بار تراویح تمہاری طرف والی مسجد میں ادا کی جائیں، اس طرح کچھ واک بھی ہو جائے گی اور واپسی پر ہم ساتھ پان بھی کھا لیا کریں گے‘‘
’’یار صدیقی، پان تو میں تمہارے ساتھ ضرور کھاتا، لیکن اب کیا بتائوں کہ افطار کے بعد ایسا پیٹ پھولتا ہے کہ کہیں آنے، جانے کی ہمت باقی نہیں رہتی، دل چاہتا ہے کہ بس لیٹا ہی رہوں‘‘
’’تو پھر عشاء کی نماز اور تراویح؟؟‘‘
’’اب ایسی حالت میں تراویح پڑھنا تو ممکن نہیں ہوگا ہاں البتہ عشاء کی نماز میں گھر پر ہی ادا کر لوں گا‘‘ قوی نے قدرے نظریں چُراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
رمضان میں ذوالقرنین کے بنائے گئے اس پروگرام پر حیرت کی جائے یا افسوس، بس یہی سوچتے ہوئے میں نے اُس سے اجازت چاہی اور گھر واپس آگیا۔
امریکا سے آئی بھائی کی فیملی اور رمضان… دو مہمانوں کی مہمان نوازی میں برتی جانے والی یہ واضح تفریق یقینا ایک سوالیہ نشان تھی۔ تیس دنوں بعد خالق کائنات کی جانب سے بھیجے گئے خاص اور اہم مہمان کی بخوشی واپسی اتنی غیر اہم کیو ں تھی؟ کیوں دوسرے مہمان کی حرُمت، عزت اور حق ادائیگی کا خیال نہیں رکھا جا رہا تھا؟ یہ سب سوچتے ہوئے پھر دل سے دعا یہ بھی نکلی کہ اے خدا ہمیں ایسا میزبان بنا دے کہ ہر مہمان کی مہمان نوازی اس طرح کریں کہ سب اپنی واپسی پر ہم سے نہال ہوں (آمین)۔