قارئین کرام، آپ جنو بی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں بریگیڈیر مصطفی کمال اور دو دیگر فوجی جوانوں کی شہادت کی خبر تو پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ یہ وہ حالات ہیں جن کے دوران ملک کی معاشی صورت حال بھی خوش کن اشاریے ظاہر نہیں کر رہی ایک طرف جہاں صنعت کار اور تاجر طبقہ بے یقینی کی کیفیت کا سامنا کر رہا ہے وہاں عوام بھی روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان دکھائی دے رہے ہیں مہنگائی ہے کہ آسمان کو چُھورہی ہے اور صنعتی پیداوار بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ عالمی منڈی میں پٹرول اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے جیسے بیرونی عناصر نے بھی ہماری اقتصادی مشکلات میں حصہ ڈالا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناقص معاشی پالیسیوں اور کمزور خارجہ پالیسی نے بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ ایسے میں پاک سر زمین پر دہشت گردوں کی واپسی نے ہمارے سیکورٹی مسائل بھی بڑھا دیے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی میں تبدیلیاں لانا ہوں گی کیونکہ دہشت گرد اپنے حملوں میں جدید ترین ہتھیار استعمال کر کے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ اب سیکورٹی اداروں کو بھی جدید سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی جانب توجہ دینا ہو گی۔ روایتی حکمت عملی اور پالیسیوں کے بل بوتے پر دہشت گردوں کا خاتمہ مشکل ہو چکا ہے۔ ادھر حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سرگرداں ہے ڈالر کی قیمت میں مزید کمی نہیں ہورہی اور پاکستانی روپے کی قدر میں ناقابل تلافی کمی واقع ہونے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں، جس سے ایک معاشی ہیجان نے جنم لیا ہے، مسائل کا کوہ گراں ہے، دوسری طرف ایک سیاسی ٹولا حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے لیکن وزیر خزانہ اس کی سختی سے تردید بھی کر رہے ہیں۔
ملک میں اس وقت توانائی، معاشی و سیکورٹی بحرانوں نے کئی مسائل پیدا کر دیے ہیں جن سے ہر خاص و عام بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے اور غریب عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، قومی سلامتی کا تصور معاشی تحفظ کے گرد گھومتا ہے۔ معاشی خود انحصاری کے بغیر قومی خود مختاری پر دباؤ آتا ہے۔ عام آدمی، خصوصاً متوسط طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو اندرونی محاذ کے علاوہ بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی علاقائی جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی کے خدشات کوکئی گنا بڑھا دیا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں ہونے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کررہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہم ان متعدد چیلنجوں کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔ جیسا کہ ہم شرح ترقی میں ایک یا دو فی صد بہتری پر پُر امید ہو سکتے ہیں کیونکہ خوش قسمتی سے، ہمارے ملک میں نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمیں ان نوجوانوں کی قوت کو بہتر انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہم سات سے آٹھ فی صد شرح ترقی تک پہنچ سکیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں شرح ترقی میں عارضی اضافے پر پُر امید نہیں ہونا چاہیے۔
ملک کی آبادی پینسٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ملکی ترقی بھی معیشت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، ہمارے پاس ہر سال بیس لاکھ افراد ورک فورس کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ہمیں ان کے لیے روزگار کے مواقعے ڈھونڈنا ہوں گے بصورت دیگر معاشرے میں بھی عدم استحکام پیدا ہوگا۔ نوجوانوں کے لیے کام ڈھونڈنے کا مطلب ہے کہ روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں جو اسی صورت میں ممکن ہے اگر معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہو۔ لہٰذا ترقی کا مطلب ہے کہ اگلے بیس سے 30 سال تک لگا تار معیشت سات سے آٹھ فی صد ترقی کرے، تو ہی ہم اس تیزی سے بڑھتی آبادی کو روزگار فراہم کر سکیں گے اور اگر ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہے تو ہم اپنی استطاعت سے کم شرح پر ہیں، جب پانچ یا چھے فی صد گروتھ ریٹ کے ساتھ ترقی کرتے ہیں، تو سب لوگ خوش ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس کے مطابق ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے۔ میڈیا پورٹس کے مطابق شدید معاشی مشکلات کا شکار پاکستان میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
عالمی بینک کی عالمی معاشی اثرات سے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ستر کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رواں سال پاکستان کی شرح نمو میں مزید کمی کا امکان ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ بد ترین سیلاب اور سیاسی بحران پاکستان کی معاشی مشکلات کے اہم اسباب ہیں۔ بیرونی قرض بھی پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ سابق سوویت یونین روس کا حشر ہمارے سامنے ہے، جس کی اقتصادی زبوں حالی اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی اور دنیا کی یہ سپر طاقت دیکھتے ہی دیکھتے تنکوں کی طرح بکھر گئی، حالانکہ اس کے پاس ایٹم بم بھی تھے اور پوری دنیا میں مار کرنے والے میزائل بھی۔ یہ طاقت پاکستان کو میسر نہیں ہے، مگر ہمیں اپنے حالات کے اندر رہتے ہوئے معاملات کو سدھارنا ہوگا۔ کورونا کے دوران ابھرنے والے مسائل کا حل تلاش نہ کیا جا سکا، دنیا میں تیل اور گیس کی قیمتیں صفر کے ہندسے کو چھو رہی تھیں لیکن پاکستان کی سابق حکومت نے وسائل ہونے کے باوجود توانائی کے سستے داموں کا فائدہ نہ اٹھایا اور برے دنوں کے لیے ان کا ذخیرہ نہ کیا جس کی وجہ سے آج ملک توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سابق حکومت نے افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں اقوام عالم کی پالیسی اور موقف کے خلاف حکمت عملی اختیار کی، افغانستان کی طالبان حکومت کو پاکستان کے ذریعے فیڈ کرنے کی پالیسی نے ملک کی معیشت کے کس بل نکال دیے۔ ملک میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو گئی، مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوگئے، معاشی شعبے میں تو قیامت برپا ہوگئی۔ ہم ان حوادث کا شکار کیسے ہوئے؟ ہمیں معاشی دلدل میں کس نے دھکیلا؟ ملک کے طول و عرض میں سیاسی انتشار کس نے پیدا کیا؟ اور یوں ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث کون بنا؟ ان تمام سوالوں کے جواب ہمیں تلاش کرنے ہوںگے۔