آپریشن کلین اب سندھ کی ضرورت

789

ایک اعلیٰ سطحی رابطہ کے حامل شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے دوران گفتگو مجھ سے سوال کیا کہ سندھ میں آٹو میٹک ہتھیاروں کی تعداد کتنی ہو گی۔ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے وہ ناٹو کے ساٹھ ہزار کنٹینر یاد آتے ہیں جو افغان جنگ کے دوران میں پاکستان میں لاپتا قرار دیے گئے اور ان کے متعلق یہ آرا تھی کہ یہ ایک لسانی گروپ نے ہتھیا لیے ہیں جس کو امریکی آشیر باد بھی حاصل تھی جب ہی تو امریکا نے اس کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت بھی کر لیا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ میری معلومات کے مطابق ان غیر قانونی جدید ہتھیاروں کی تعداد ایک رپورٹ میں دو کروڑ بتائی گئی ہے۔ حکومتی ریکارڈ کے کسی کونے کھدرے میں یہ رپورٹ آج بھی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں مبالغہ آرائی ہو، اس کو کم کر کے ہزاروں پر بھی لے آیا جائے تو یہ سوچ کر روح کانپتی ہے کہ جدید اسلحہ سے لیس سماج دشمن عناصر بیرونی اشارے پر اٹھ کھڑے ہوئے تو سنبھالے نہ سنبھلیں گے۔ حکمرانوں سے تو کچے کے چند سو ڈاکو بھی سنبھالے نہیں جارہے وہ صوبے کی ریاست کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں پولیس ان پر قابو پانے میں ناکام اور رینجرز کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ اس بہترین صورت حال میں شرفاء بیرون ملک منتقل ہونے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں زمیندار جو اپنی زمین سے حد درجہ پیار کرتے ہیں اس کو فروخت کر رہے ہیں۔ کئی بچیوں کا رشتہ زمین کے بٹوارے سے نہ کرتے تھے اب آباء و اجداد کی نشانیوں اور کروفر کی علامتوں کو تج دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے نامور زمیندار نے ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کو فروخت کر کے ترکی نقل مکانی کی ہے اور یہ سلسلہ اب تیزی پکڑتا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی پی پی کے پندرہ سالہ اقتدار نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے کہ جو محنت کے بجائے رشوت، کمیشن کی دولت پر پروان چڑھی ہے اور وہ محنت سے عاری ہے اور بھاری اخراجات کی لت کا شکار ہے۔ جب ان کے یہ سوتے بند ہوں گے تو صوبہ میں امن امان کی صورت حال گمبھیر ہونا دیوار پر لکھا ہوا ہے، یہ ان کے ہاتھوں استعمال ہوں گے، ذہن میں آیا کہ سابق آرمی چیف اسلم بیگ تو کہہ چکے ہیں کہ بھارت سندھ بلوچستان میں شورش کے لیے سالانہ 40 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اور کامریڈوں کو استعمال کرتا ہے۔ پی پی پی کے پندرہ سالہ دور اقتدار میں جتنے لائسنس ہتھیاروں کے جاری ہوئے ذرا اگر ان کی پڑتال کی جائے تو دماغ گھوم جاتا ہے اور یہ اندیشہ قوی ہوتا ہے کہ عدم تحفظ کا احساس کس قدر بڑھا ہے۔ ہتھیار آتے کہاں سے ہیں لاتا کون ہے اور کتنی آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں یہ کوئی پہلی نہیں۔ 1993-94ء میں انسانی اغوا کی وارداتوں سے جو مقاصد حاصل کیے گئے باخبر حلقے اس کو ریہرسل قرار دیتے ہیں اب تو سندھ بارود کے ڈھیر پر کھڑا بتایا گیا۔ 1992-93ء میں ایم کیو ایم نے نعرہ لگایا تھا کہ اب نہ ہو گا ہمارا گزارہ آدھا ہمارا آدھا تمہارا گورنر سندھ حکیم محمد سعید شہید نے صدر مملکت کو تحریراً آگاہ کیا تھا کے سندھ کے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ امریکی ایماء پر کراچی سے علٰیحدگی چاہتے ہیں یہ منصوبہ ربّ کے کرم نے ناکام بنایا۔ اب سندھ میں ہتھیاروں کی زبانی بات معمول بن رہی ہے۔ راکٹ لانچر، مشین گنیں، ائرکرافٹ گن امن دشمن عناصر کے پاس سوشل میڈیا پر دکھائی جارہی ہیں اور محافظ ملک و ملت تنہا کرنے کے لیے کرائے کے ٹٹو سرگرم ہیں۔ سندھ کا امن و امان ریڈلائن کراس کرتا جارہا ہے۔ بڑی پارٹی کے لیڈر بنگلا دیش کی مثال دینے لگے ہیں بھارت کو پرخاش سندھ سے اس حوالے سے بھی ہے کہ یہ باب الاسلام ہے اور ہندوتوا اسلام دشمنی میں اندھا ہے۔ کراچی کی طرح کا آپریشن کلین اپ اب بقیہ سندھ کی بھی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی آڑ میں ایک بحران اٹھانا زور بازو دکھانا ہے۔