مہنگائی و بیروزگاری جاری رہی تو انارکی دُور نہیں، سراج الحق

312
get power

لاہور:  امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ملک میں انارکی پھیلنے کے خدشہ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر قانون و انصاف کی اسی طرح دھجیاں اڑتی رہیں، غریب قوم مہنگائی، بدامنی، غربت اور بے روزگاری کی آگ میں جلتی رہی تو حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔

جماعت اسلامی کے انتخابی منشور کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے  سراج الحق نے کہا کہ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ طاقتور کہتا ہے کہ ججز اس کی طرف چل کر آئیں، جتھوں کی صورت میں عدالتوں پر حملے ہوتے ہیں، پولیس اور جرنیل اپنی حفاظت تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، پولیس لوگوں پر گولیاں برساتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس، پنڈوراپیپرز سے لے کر توشہ خانہ تک کرپشن کی ایسی داستانیں ہیں جن میں حکمران جماعتوں کے سرکردہ رہنما، بیوروکریٹس، سفارتکار، جرنیل، ججز سبھی ملوث نظر آتے ہیں۔عدالتوں میں کمزور اور غریب کے لیے انصاف کے دروازے بندہو گئے، تینوں بڑی جماعتوں کے نزدیک معیشت کی بہتری صرف آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں ہے۔وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جاری ہے اور حکمران اشرافیہ لوٹ مار اور مفادات کے چکروںمیں اس حد تک ملوث ہو چکی ہے کہ انہیں ملک اور قوم کی کوئی فکر نہیں، 75برسوں سے عوام کی محرومیوں کا ناختم ہونے والا طویل سلسلہ جاری ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹروں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ہر شعبے میں تباہی مچائی اور قوم کو لاوارث چھوڑ دیا۔ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اگر قوم اپنے حق کے لیے کھڑی نہ ہوئی اور انہی آزمودہ، نااہل اور ظالم جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کی پارٹیوں کو اقتدار میں لاتی رہی تو حالات ہرگز نہیں بدلیں گے اور وہ خواب پورا نہیں ہو گا جس کی خاطر اسلامیان برصغیر نے جان و مال کی قربانیاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ قوم جماعت اسلامی پر اعتماد کرے تاکہ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعمیر ہو سکے۔

مقامی ہوٹل میں ہونے والی تقریب رونمائی منشور میں نائب امرا لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر، اظہر اقبال حسن، سیکرٹری اطلاعات قیصرشریف، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، شیخ الحدیث مولانا محمد مالک، امیر لاہور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، میاں مقصود احمد، صدر جے آئی یوتھ رسل خان بابر، صدر جے آئی کسان شوکت چدھڑ، جے آئی ویمن ونگ کی ذمہ داران نے شرکت کی۔

تقریب میں ڈاکٹرز، انجینئرز، علمائے اکرام، نامور صحافیوں، وکلا اور دیگر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے انتخابی ترانہ اور انتخابی نشان ترازو کی بھی رونمائی ہوئی۔ منشور کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فرید پراچہ نے حاضرین کو بتایا کہ جماعت اسلامی نے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سب سے پہلے منشور شائع کیا ہے۔

سراج الحق نے منشور کمیٹی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کا منشور دوسری جماعتوں کی طرح محض ایک خالی مشق نہیں بلکہ یہ اس ویژن کی رونمائی ہے جس کو جماعت اسلامی کی قیادت مکمل طور پر نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، عوام نے ہمیں موقع دیا تو وعدہ کرتا ہوں کہ منشور کے ایک ایک حصہ پر عمل درآمد کریں گے۔

امیر جماعت نے کہا کہ وہ پوری ذمہ داری اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت نہیں، معیشت میں بہتری آ سکتی ہے اگر کرپشن، سودی نظام ، مس مینجمنٹ ، وی آئی پی کلچر اور غیر ترقیاتی اخراجات ختم ہو جائیں، قانون و انصاف کا بول بالا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں جو ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے، سپریم کورٹ کے جج نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم لوگوں کو انصاف نہیں دے سکے ، سود اللہ سے جنگ ہے مگر اسلامی ملک کے حکمران اسے جاری رکھنے پر بضد ہیں، گزشتہ پانچ سالوں میں پانچ وزرائے خزانہ آئے سب کے نزدیک آئی ایم ایف کا قرضہ مسائل کا حل ہے، حکمران قرض لے کر خود کھا جاتے ہیں، غریبوں کے حصے میں ٹیکس کی ادائیگی آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک میں لوگ آٹے کے لیے لائنوںمیں کھڑے ہیں، پولیس وی آئی پی کو تحفظ دیتی ہے، حال یہ ہے کہ 25لاکھ آبادی کے شہر اسلام آباد میں ایک آئی جی کے نیچے پانچ ڈی آئی جیز ہیں۔ان سے پوچھا گیا کہ تو جواب تھا کہ یہ حکمرانوں کی حفاظت کے لیے ہیں، عوام بھتہ خوروں کو بھگت رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہیں، ملک میں خواتین اور بچیاں محفوظ نہیں، سرداروں نے نجی جیلیں بنائی ہوئی ہیں، سیکڑوں افراد کے قتل میں ملوث طاقتور شخص کو عدالت سے ضمانت مل جاتی ہے اور وہ وکٹری کا نشان بنا کر اسی دروازے سے باہر آتا ہے جو ججز کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ تعلیمی نظام استحصالی اور طبقاتی ہے، مدارس کے 31لاکھ بچے اپنے آپ کو ملک میں اجنبی محسوس کرتے ہیں، اگر قومی زبان حقیقی معنوں میں نافذ ہو جائے تو مقابلے کے امتحانات اردو میں ہوں تو مدارس کے طلبہ و طالبات بھی بیوروکریسی میں آ سکتے ہیں،صرف اوورسیز کا اعتماد بحال ہو جائے تو 31ارب ڈالر سالانہ کی بجائے ملک میں 50ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر ہوں۔

امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی ایسا پاکستان چاہتی ہے جس میں انسان انسانوں کے غلام نہ ہوں اور وہ باوقار اور باعزت زندگی گزار سکیں، جہاں لوگوں کو صحت کی سہولتیں اور صاف پانی ملے، جہاں حلال رزق کمانا آسان ہو، لوگ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکیں، ایک ایسا پاکستان جس میں نوجوان میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر آگے آئیں، جہاں اقلیتوں کو تحفظ ملے ، خواتین کی عزت اور حرمت کی حفاظت ہو، استحصالی نظام کا خاتمہ ہو اور ہم ایک قوم اور ایک ملت بن جائیں، ایسا پاکستان صرف جماعت اسلامی ہی بنا سکتی ہے۔