یہ ہزاروں سال پہلے کی بات ہے جب سیدنا ابراہیمؑ وادی ٔ غیرذی زرع میں اپنی زوجہ اماں ہاجرہ کو نوزائیدہ بچے کے ساتھ تنہا چھوڑا تو بیوی کا اپنے شوہر سے بس ایک سوال تھا کیا یہ اللہ کاحکم ہے؟ بے شک یہ اللہ کا حکم ہے۔ بس اس کے بعد جیسے سارے سوال، سارے خوف، ساری بیتابیاں یکلخت ختم ہوگئیں وقت کے پیغمبر پہ اللہ کا حکم اترا ہے تو تعمیل تو سر بہ سر کرنی ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے وہی میرے اور میرے اس معصوم بچے کو کافی ہے۔ جہاں زندگی کے آثار ذرہ بھر نہ تھے وہاں اس محترم خاتون کی بندگی زندگی بننی تھی ایک نہیں دو بھی نہیں کئی زندگیاں۔ تاابد کچھ رحمانی فیصلے ہونے تھے سراپا رحمت کی آمد کے فیصلے۔ جب ننھے اسماعیل نے پیاس سے بے قرار ہوکر رونا شروع کیا تو بیتاب ماں کبھی تلاش اب میں کبھی پہاڑیوں پہ چڑھتی کبھی واپس اتر کے بچے کو دیکھتی۔ یوں سات چکر پورے ہوئے تو رازق وخالق کے کرم سے بچے کی رگڑتی ایڑیوں سے چشمہ پھوٹ نکلا جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت رہے گا۔ خدا نے مقرب بندی کی اس سعی کو حج کا اہم رکن بنادیا، مرد بھی عورتوں کے ساتھ اس کی پیروی میں یہ سعی کرتے ہیں۔
اور آگے چلیں… خود کو ربّ اعلیٰ کہلانے والے متکبر بادشاہ فرعون کے خلاف سیدنا موسیٰؑ کلمہ ٔ حق بلند کرتے ہیں تو ملکہ جو زوجۂ فرعون ہیں ایک خدا کی کبریائی کا اعلان کرتی ہیں۔ فرعون نے ان کے انکار کا کیا ہولناک جواب دیا کیسے کیسے ستم ڈھائے بالآخر اپنے غیظ کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھوں میں میخیں گڑوادیں مگر ایک اللہ پہ ان کا یقین انہیں متزلزل نہ کرسکا اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں مومنات کے لیے ان کی مثال بیان کی ہے کس طرح صبرو ثبات کی ایک چٹان بن گئیں اور دعا کی کہ اے اللہ اپنے پاس میرے لیے جنت میں گھر بنادے فرعون اور اس کے عمال اور ظالم لوگوں سے نجات دے۔ ربّ نے انہیں دنیا ہی میں جنت کا گھر دکھادیا اور تاابد ان کے ذکر کو زندہ رکھا۔ پھر اس لیے امتوں کی ایک اور مقدس بی بی مریمؑ جن کے نام اللہ نے پوری سورت کردی اور صرف انہیں کو یہ اعزاز بخشا ورنہ کسی خاتون کے نام کوئی سورت نہیں ان کے ہاں فرشتہ وحی کے ساتھ بے موسم کے پھل لے کر آتا تھا باعصمت کنواری مریم سیدنا عیسیٰؑ روح اللہ کے معجزاتی پیدائش پر کس کرب سے گزری تھیں کلام پاک تاقیامت گواہی دیتا رہے گا اور تذکیر محفوظ رہے گی دل پڑھ پڑھ کر پگھلتے رہیں گے۔ اس کربناک حالت میں وہ مومن عفیفہ کیسے گزری مگر اس کا ربّ اس کے ساتھ تھا نسوانی بندگی کا کمال یہ مثال اور یہ بی بی ام المومنین سیدہ خدیجۃُ الکبری جنہیں شرافت اور پاکبازی کی وجہ سے طاہرہ کہا جاتا تھا جنہوں نے آپؐ کی صداقت اور امانت داری کی وجہ سے شادی کی تو کس احسن طریقے سے رشتہ نبھایا جب سرکارؐ پہلی وحی کے بعد غار حرا سے لرزتے گھبرائے ہوئے لوٹے اور آتے ہی پکار اٹھے زملونی زملونی (مجھے چادر اوڑھا دو) آپ نے جب وحی اور فرشتے کی آمد کا سارا واقعہ دوہرایا تو انہوں نے جس طرح آپ کو دلاسہ دیا ہمت بڑھائی امت کی ساری بیویوں کے لیے ایک اعلیٰ مثال بن گئیں کہ شوہر بیوی کے کندھے پہ سر رکھ کر روئے تو اسے حوصلہ دینا وفا اور رفاقت صالحہ اسی کا نام ہے پھر سب سے پہلے آپ کی تصدیق انہوں نے ہی کی اور تائید اور اعانت میں عمر گزار دی اسی لیے آپ کی وفات کے سال کو سرکار نے عام الحزن قرار دیا۔
اور یہ ایک اور بڑی مثال ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہؓ ہیں ان پہ واقعۂ افک کیا قیامت سا گزرا سب جانتے ہیں ہلکان ہوکر بیمار بھی پڑ گئیں کہ بہتان عظیم تھا۔ انہوں نے تب سیدنا یعقوبؑ کی فریاد دہرائی کہ میں اپنے غم اور اضطراب کی شکایت بس اللہ سے کرتی ہوں۔ اور اللہ ربّ العزت نے بڑی محبت سے اپنی بندی کی داد رسی کرتے ہوئے دس آیات برأت نازل فرمائیں۔ تب سیدہ نے فرمایا میں اپنے ربّ کا شکر ادا کروں گی سب سے پہلے۔ اللہ سے ان کے قرب کی انتہا تھی۔
پھر تاریخ اسلام کی پہلی شہید خاتون سمیّہ کی تذکیر کیجیے ابوجہل کی لونڈی تھی الہ واحد کا اقرار کرنے پہ جبرو تشدد کرتا گیا کہ وہ نئے دین سے آبائی دین کی طرف آجائیں مگر وہ ڈٹی رہیں بالآخر سفاکی سے ظالم نے جان لے لی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر زندگی کی بازی ہارنے والی مقدس بی بی بندگی کے اوج کمال پہ جا پہنچیں کہ: ’’اللہ میرا رب ہے‘‘۔ پھر آگے لخت جگر رسول اللہؐ سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ خاتون جنت کو لیجیے جن کے زہد وتقویٰ اور حیا وحجاب کی مثال مشکل ہے۔ ہر مشکل ہر صعوبت میں باپ اور شوہر کا ساتھ نبھایا۔ خدمت اطاعت تربیت اولاد کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ جب ہی رسول امیںؐ نے ان کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیا۔ پھر ان کی صاحبزادی سیدہ زینب بنت علی کی شجاعت اور علم وادب اورصبرو ثبات کے تو کیا ہی کہنے۔ یہ کربلا کی شہزادی ہیں پورا خانوادہ ان کے سامنے تہہ تیغ کردیا گیا انہیں ظالموں نے گرفتار کرلیا شام کے درباروں میں ان کے ایمان صداقت کی جری آواز گونجی تو مرد بھی روپڑے یہ آواز یہ کردار آج بھی مومنات کو حوصلوں کے جہان عطاکرتا ہے۔
خواتین کے حوالے سے ایک طرف ان کے تذکرے کی ضرورت ہے دوسری طرف قرآن پاک دو منفی ترین عورتوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ سورۂ یوسف میں بدطینت زلیخا اور اس کی سہیلیوں کا ذکر دیکھ لیں جب 8 مارچ کی بے ہودہ عورتوں کی حرکتیں دیکھیں سنیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ نئے زمانے کی بات نہیں یہ تو قبل مسیح کے عہد کی چڑیل عورتوں کی وارث کردار ہیں۔ عورت کی فطرت میں دست درازی ہے ہی نہیں مگر زلیخا ہزاروں سال پہلے کس حد تک شیطانیت کے زیر اثر تھی کہ فطرت سے انحراف میں حدیں پھلانگ گئی اس پہ بے شرمی کی مزید انتہا کہ سہیلیوں کو بلا کر اس کا اقرار بھی کرتی رہی اور وہ بھی تماشے سے لطف لیتی رہیں (معاذاللہ)
یہ ہزاروں سال پہلے کے خبیث کردار پھر زندہ ہوکر طاغوت وقت کے اشارے پہ رقص کناں ہیں تاکہ فیمینزم کے نام پہ فیمیلزم کو تباہ کرسکیں۔ پھر ایک منفی کردار سورۂ لہب میں ابولہب کی بیوی کا ہے جو رسول اللہؐ کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی۔ زبان کی شرانگیزی الگ فتنے جگاتی تھی، دونوں قسم کی عورتیں سامنے ہیں۔
ایک طرف صالح اور مثبت ترین نسوانی کردار جن پہ دنیا کی تاریخ ناز کرتی رہے گی آج بھی ان کی کنیزیں انسانی رواجوں کی زنجیریں توڑتے ہوئے اپنے حق کی بات کریں گی۔ ادھر کچھ دجالی ایجنڈے اور طاغوتی پلاننگ کی الہِ کار بن کر مظلوم بے بس عورتوں کا استحصال کرنے کو میدان میں آئیں گی بڑے جال بچھائے ہیں انسانی قوانین نے عورتوں کو حیوان بنا کر رکھ دیا کہیں شتر بے مہار شوپیس کی صورت یا کہیں کھونٹے سے بندھی گائے کی طرح مجبور محض بہرحال گھروں سے دفاتر تک سڑکوں پہ سفر کرتے گلیوں سے گزرتے عورت کے بڑے مسائل سے نبردآزما عورت سے ایک سوال ہے تاریخ کے آئینے میں عکس دیکھ کر گردوپیش میں ہرطرف سے دھتکاری ہوئی دوہرا بوجھ اٹھاتی یا گھروں میں حق تلفی کاشکار عورت سے وقت کا ایک بڑا سوال ہے دونوں طرح کے کرداروں کو سامنے رکھ کر ایک سچا سوال ہے۔
’’سنو! تم کہاں کھڑی ہو؟‘‘
الہ واحد کی بندگی کے دائرے میں یا طاغوتی قوتوں کے اشارے پہ تھرکتی کٹھ پتلی کے روپ میں جو کبھی بے جان شوپیس ہے یا دل بہلانے کا سستا سامان بالکل غلام یا حیوان سنو! وقت پھر پوچھ رہا ہے ’’سنو! تم کہاں کھڑی ہو؟‘‘