بی بی سی کا کہنا ہے کہ: ’’چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے سعودی عرب، ایران معاہدے کو ’بات چیت کی جیت‘، ’امن کی فتح‘ اور ایک ایسے وقت میں اہم خوشخبری کہا جب دنیا ’انتشار کا شکار ہے، لیکن رائٹر بتا رہا ہے کہ ’’وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے، لیکن وہ یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 2016 میں اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب ایران میں سعودی سفارتی خانے پر ایرانی مظاہرین کے حملے کے بعد سعودی حکام نے سعودی شیعہ عالم کو پھانسی دے دی تھی لیکن اب سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کی ثالثی میں سعودی اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ مذاکرات ہوئے تھے۔
اس معاہدے پر اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا اس معاہدے سے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے اور اس تبدیلی کو وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یاؤر لپید نے کہا کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنا کام کرنے کے بجائے قانون کے محاذ میں الجھ جائیں‘‘۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جواب میں تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے‘۔ سعودی سرکاری پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلیٰ قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا۔ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا اور ممالک کی خود مختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ’اچھے ہمسایہ تعلقات‘ کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔
ایرانی قیادت ایک طویل الجھن کے بعد اس معاہدے پر راضی ہوئی جس کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ گزشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ دونوں فریقین یعنی سعودی عرب اور ایران نے 2021 اور 2022 میں مذاکرات کی میزبانی کرنے پر چین کے ساتھ ساتھ عراق اور سلطنت عمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
علی شمخانی نے ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے قریب سمجھی جانے والی ایک نیوز ویب سائٹ نورنیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’غلط فہمیوں کو دور کرنے اور تہران ریاض تعلقات کے تحت مستقبل کی طرف دیکھنا یقینی طور پر علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دے گا اور خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون میں اضافہ کرے گا‘۔ چینی صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے خطے میں چین کی سفارتی فتح ہے جس کی جغرافیائی سیاست پر امریکا کا غلبہ ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغرب کی جانب سے چین کو الزامات کا سامنا ہے کہ بیجنگ نے روس یوکرین جنگ کے سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور چین یوکرین کی جنگ پر بات چیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وانگ نے کہا کہ ’ایک نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر، چین نے میزبان کے طور پر اپنے فرائض پورے کیے ہیں۔ بیجنگ دنیا کے گرما گرم مسائل سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کے طور پر اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔
ایک سینئر ایرانی سیکورٹی اہلکار نے کہا کہ اس معاہدے کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی حمایت حاصل تھی۔ اہلکار نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا: ’اسی وجہ سے، شمخانی نے سپریم لیڈر کے نمائندے کے طور پر چین کا سفر کیا۔ ادارہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ایران میں سپریم اتھارٹی اس فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔ ریاض امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں روایتی قربت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کے ایران اور چین دونوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔
اسرائیل کی تشویش کے باوجود دنیا بھر میں استقبال کیا جارہا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ چین کی تعریف کرتے ہوئے، پاکستان نے کہا کہ: ’ہم اس تاریخی معاہدے میں چین کی بصیرت کی قیادت کے کردار کو سراہتے ہیں، جو مثبت مشغولیت اور بامعنی مذاکرات کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم اس انتہائی مثبت سرگرمی کے منتظر ہیں۔ ہم سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت کی جانب سے دکھائی جانے والی بصیرت کی تعریف کرتے ہیں‘۔ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں مثبت کردار ادا کرتا رہے گا اور یہ اقدام خطے کے باقی حصوں میں تعاون اور خوشحالی کی مثال بنے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ خلیجی خطے میں استحکام لانے کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں آنے والی اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ عراق نے سعودی عرب اور ایران کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نیا باب کھلتا نظر آ رہا ہے۔ عراقی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، یہ معاہدہ ’دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کے انضمام کی عکاسی کرے گا اور خطے کے ممالک کے تعاون کو ایک معیاری تحریک دے گا، جس کا مقصد ایک فریم ورک کو پورا کرنا ہے۔ تمام جماعتوں کی خواہشات اور ایک نئے مرحلے کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے‘۔
ایران کے قدیم دشمن اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے باوجود یو اے ای نے کہا کہ ایک مثبت علاقائی بات چیت سے اچھی ہمسائیگی میں اضافہ ہوگا۔ مصر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ اس پیش رفت سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے بلاشبہ ان دونوں ممالک کے درمیان صحت مند تعلقات سے نہ صرف ہمیں بلکہ یمن اور شام کے عوام اور عمومی طور پر مزاحمتی قوت کو بھی فائدہ پہنچے گا‘۔ لیکن سوال یہ ہے کیا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے بڑھتے ہو تعلقات کو بریک لگ جائے گا اس بارے میںرائٹرز کے مطابق ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی ان کا ملک سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ ایران سے متعلق مغرب کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ مگر ریاض سے تعلقات بحال کرنے کی اسرائیلی کوشش پر اس کا اثر نہیں پڑے گا‘۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے چینی ثالثی میں کرائے گئے اس معاہدے پر سابقہ حکومت اور امریکی صدر جو بائیڈن کو قصوروار ٹھیرایا ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ’’سعودی، ایران معاہدہ میں چین کامیاب ہوا ہے اور امریکا، بھارت، اسرائیل کو تشویش کا سامنا ہے۔