چین امریکا کشمکش کمزور ملکوں کی شامت

768

چین کے نئے وزیر خارجہ کن گینگ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امن عالم کے حوالے سے بہت معنی خیز بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے اپنی تائیوان پالیسی جاری رکھی تو دونوں ممالک ناگزیر تصادم کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ انہوں نے چین اور روس کے تعلق کا بھرپور دفاع کیا اور کہا اگر امریکا یوکرین کو اسلحہ دے سکتا ہے تو چین بھی روس کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے یہ کسی ملک کے خلاف نہیں۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تھا کہ تائیوان چین کی ریڈ لائن ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان غبارے کا تنازع پہلے سے جاری کشیدگی کو نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب چینی نمائندے کو کہنا پڑا ہے کہ اگر امریکا نے اسی طرح چین کو محدود کرنے کی کوشش کی تو تصادم ناگزیر ہو کر رہ جائے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ غبارے کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا جس قدر امریکا نے اس مسئلے کو ہوا دی اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔ امریکا نے چین کے غبارے کو اپنی حدود میں مارگرایا اور پہلے تو چین نے اس پر خاموشی اختیار کی بعدازاں اسے ایک سول طیارہ قرار دیا۔ چین اور امریکا دونوں پہلے ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اب آنکھوں میں لالی بھی اُترتی ہوئی محسوس ہو نے لگی ہے۔
چین کی طرف سے یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ امریکا نے اُسے اپنا پہلا دشمن قرار دے رکھا ہے اس لیے چین صرف اسٹرٹیجک میدان ہی میں امریکا کو چیلنج نہیں کر رہا بلکہ تجارتی میدان میں اس سے دنیا کی نمبر ون معیشت کا اعزاز چھیننے کے درپہ ہے۔ اس کی نسبت روس کا زیادہ تر چیلنج یورپ کو درپیش ہے اور یورپی اتحادی کے طور پر امریکا روس کو سبق سکھا نے کی تگ ودو کررہا ہے۔ یوکرین نے اس کھلی محاذ آرائی کو ایک میدان فراہم کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ کھلی محاذ آرائی کے لیے تائیوان کو تیار کیا جا رہا ہے مگر شاید چین ابھی اس دلدل میں قدم رکھنے سے گریزاں ہے اور یوکرین کے حالات کو دیکھتے ہوئے چین آخری حد تک صبر کا گھونٹ پینے کی کوشش کرے گا۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب امریکا چین کو اپنی کچھار سے باہر نکال لائے گا تو چین کھلی محاذ آرائی پر مجبور ہوگا۔ جس کا اشارہ غبارے کے تنازعے کے بعد چینی نمائندے نے دیا ہے۔
چین اور امریکا کی اس کشمکش میں تیسری دنیا کے ترقی پزیر ملکوں اور کمزور معیشتوں کی شامت آگئی ہے جنہیں چین یا امریکا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے جیسی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے امریکا نے چھوٹے ملکوں کے لیے ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا چین کے ساتھ‘‘ کی سخت گیر پالیسی اپنا کرغیر جانبداری کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ یہ سرد جنگ سے زیادہ خطرناک اور مشکل صورت حال ہے۔ سردجنگ میں غیر جانبدار تحریک کے نام پر کچھ ملکوں نے ایک الگ راہ اپنائی تھی مگراب ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے جو چین اور امریکا کی کھلی محاذ آرائی کی زد میں آرہے ہیں۔ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے تو چین اس کا قریبی ہمسایہ اور اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ سی پیک کی صورت میں چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرچکا ہے اور آگے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کے مقابلے میں ایران میں چا بہار بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ گوادر میں چین کی دلچسپی تھی تو چا بہار میں بھارت کا گہرا مفاد تھا کیونکہ یہ بندرگاہ بھارت کو وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی محتاجی اور مجبوری سے بچا رہی تھی۔ یوں چا بہار بندرگاہ پاکستان کو نظر انداز کرکے وسط ایشیا تک پہنچنے کی حکمت عملی کا مظہر تھی۔ گوادر اور چا بہار کی تعمیر انہی دو الگ مقاصد کے تحت ایک ساتھ جاری رہی۔ چند دن قبل ایک مغربی دانشور نے چا بہار کی ایک تصویر کے ساتھ یہ ٹویٹ کیا تھا کہ گوادر اور چا بہار کی تعمیر ایک ساتھ ہوتی رہی مگر گوادر کے مقابلے میں چا بہار ایک اچھا ٹیک آف کر چکی ہے۔ یہ چا بہار بندگاہ پر افغانستان کے لیے لدے ہوئے مال بردار ٹرکوں کی قطار کی تصویر تھی۔ ان ٹرکوں میں بھارت سے جانے والا مال افغانستان بھیجا جا رہا تھا۔ اس برعکس گوادر چین کو بین الاقوامی دنیا سے جوڑنے اور جنوبی چین کے سمندروں اور جزائر ملاکا پر کلی انحصار ختم کرنے کی حکمت عملی کے تحت تعمیر ہوئی تھی اور اس عمل میں پاکستان اپنے لیے مواقع اور امکانات کی ایک خیالی جنت بھی ذہن میں بسائے ہوئے تھا مگر ابھی تک نہ تو اس مقصد میں کامیابی ہوئی اور نہ پاکستان کا معاشی عدم استحکام دور ہو سکا اُلٹا اس منصوبے کے باعث پاکستان ایک کراس فائر میں پھنس رہ گیا۔
امریکا پاکستان کے بالادست طبقات اور این جی اوز کو خوش رکھتا ہے جبکہ چین پاکستان کے اُجڑے ہوئے خزانے کی رونقیں بحال رکھ کر مجموعی طور پر پاکستان کو معاشی وینٹی لیٹر فراہم کرتا ہے۔ مجموعی طور پر چین کی اس پالیسی کا فائدہ ایک عام اور مفلوک الحال پاکستانی کو ہوتا ہے جبکہ بالادست طبقات کو خوش رکھنے کا عام آدمی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس سے صرف فیصلہ سازی پر اپنا اثر رسوخ بحال رکھنے میں کامیابی ملتی ہے۔ چین اور امریکا کی بڑھتی ہوئی کشمکش پاکستان جیسے ملک کے لیے تنی ہوئی رسی پر سفر ہے۔ ماضی کی سرد جنگ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان تھی اور پاکستان سوویت یونین کے ساتھ اپنی راہیں پہلے ہی جدا کرکے مغربی کیمپ کا حصہ بن چکا تھا اس لیے پاکستان پر کسی بھی دبائو کے زیادہ اثرات نہیں پڑتے تھے۔ اب حالات یکسر بدل گئے ہیں اب امریکا نے اپنا نمبر ون ہدف چین کو قرار دے رکھا ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ یا بیک وقت جن دو ملکوں کے اثرات کی زد میں ہے ان میں چین اور امریکا شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے اس کشمکش سے اپنا دامن بچانا کارِ دارد ہے۔ کم وزیادہ اس مشکل کا سامنا اور دنیا میں بہت ممالک کو ہے مگر چین اور پاکستان تعاون کے جس تعلق میں بندھے ہوئے ہیں اور دونوں کا رشتہ جس حد تک گہرا ہے اس میں پاکستان کا چین کے خلاف استعمال ہونا حد درجہ مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے۔