فیض احمد فیض نے تو اپنی ایک مشہور نظم کا یہ مصرع وطن عزیز میں سیاسی پابندیوں کے تناظر میں کہا تھا، لیکن آج کل یہ مصرع صوبہ سندھ میں آئے دن آوارہ اور بائولے کتوں کی جانب سے سر راہ چلتے ہوئے یا اپنے کام میں مصروف عام افراد اور بچوں پر اچانک حملہ آور ہو کر انہیں اپنے نوکیلے دانتوں سے کاٹ کر شدید زخمی کردینے کی وجہ سے ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ دو دن پیش تر راقم کے 6 سالہ بھتیجے عبدالمعیز کو شام کے وقت اپنے محلہ میں کھیلتے ہوئے ایک آوارہ کتے نے اچانک حملہ کرکے اس کی دائیں ٹانگ پر کاٹ ڈالا۔ معصوم بچہ اس اچانک حملہ کی وجہ سے حواس باختہ ہو کر زمین پر گر پڑا جس کے نتیجے میں اس کے بالائی ہونٹ پر بھی شدید زخم آئے۔ سگ گزیدہ بچے کو فوراً مقامی سول اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر موجود نہیں تھا، سگ گزیدہ افراد کے لیے ویکسین تو کجا مناسب علاج اور مرہم پٹی کا انتظام بھی نہیں تھا۔ حالاں کہ ابھی چند ماہ قبل ہی حکومت سندھ کی طرف سے اس کے ایمرجنسی کے شعبہ پر 3 کروڑ روپے خرچ کرنے کا اعلان بڑے زور و شور سے کیا گیا تھا وہاں موجود نوآموز طبی عملے نے متاثرہ بچہ کو صرف پائیوڈین لگا کر اپنی طرف سے فارغ کردیا۔ معصوم متاثرین بچے کو ہنگامی طور پر ایک نجی میڈیکل اسٹور سے ویکسین خرید کر لگائی گئی۔ یہ صرف ضلع جیکب آباد کے ایمرجنسی کے شعبہ کا حال نہیں ہے جو ایک ضلعی ہیڈکوارٹر کے سول اسپتال کا حصہ ہونے کی بنا پر بے حد فعال ہونا چاہیے بلکہ سندھ کے ہر سرکاری طبی ادارے کی یہی حالت زار ہے۔ جہاں آنے والے بیمار افراد اور ان کے اہل خانہ دربہ در کی ٹھوکریں کھانے جیسی صورت حال کا سامنا کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ جہاں انہیں اپنے مطلوبہ ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس وقت ڈاکٹر نجی کلینکس میں ہوتے ہیں، جبکہ تنخواہ وہ حکومت سے ہر ماہ اس کام کی وصولی کرتے ہیں، جسے وہ صحیح طور پر سرانجام ہی نہیں دیتے۔
سندھ کے بیش تر سرکاری اسپتالوں میں غریب اور بیمار افراد کو جب وقت پر بغرض علاج ڈاکٹر ہی میسر نہیں آتے تو پھر دوائیں کہاں سے مل پائیں گی؟ یہی وجہ ہے کہ چارونا چار بیمار افراد کو پرائیویٹ اسپتالوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ زندگی تو سبھی کو پیاری ہے، نجی اسپتالوں اور کلینکس میں ڈاکٹر انہیں بھاری فیس لے کر اور بہت سارے ضروری یا غیر ضروری ٹیسٹ کرواکے، دوائوں کی ایک لمبی فہرست لکھ کر علاج کے نام پر ایک طرح سے انہیں کُند چھری سے ذبح کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ عوام حیران اور پریشان ہیں کہ آخر ہر سال سندھ کے سرکاری طبی اداروں کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے تو وہ کہاں جاتا ہے؟ کس مد میں خرچ ہوتا ہے؟ ایک تو ہر سرکاری ادارے کی طرح سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بھی ملازمین کی یونین قائم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اور یونین کے وابستگان ایک دوسرے پر عدم تعاون کا الزام دھرتے رہتے ہیں۔ احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے بے چارے مریض اور ان کے لواحقین درمیان میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ بہت سارے ڈاکٹر اور نچلے درجے کے طبی ملازمین اپنے افسران کی ملی بھگت سے ویزا پر گئے ہوئے ہیں اور اپنی سرکاری ملازمت سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
سندھ کے سرکاری اسپتالوں کی ایمبولینس سرکاری جلسے، جلوسوں کے لیے تو استعمال ہوتی ہیں لیکن انہیں ایمرجنسی کی حالت میں مریض کو دوسرے اسپتال میں شفٹ کرنے یا کسی مریض کے جاں بر نہ ہونے کی صورت میں اس کی نعش کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لیے بھی بالکل نہیں دیا جاتا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جس میں کوئی نعش، بیمار یا حاملہ خاتون کو سرکاری ایمبولینس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کسی رکشہ، گدھا گاڑی بلکہ موٹر سائیکل تک پر بھی میڈیا کے توسط سے لے جاتے ہوئے نہ دکھایا جاتا ہو۔ لیکن حکومت سندھ اور محکمہ صحت سندھ کے ذمے داران کے کان پر پھر بھی کوئی جوں تک نہیں رینگتی۔ بے حسی اور ڈھٹائی ہے جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتی۔ سارے متعلقہ ذمے داران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہر سرکاری ادارے کی طرح کرپشن کی دیمک نے محکمہ صحت سندھ کو بھی چٹ کر ڈالا ہے۔ کسی کو بھی اس کا مطلق احساس تک نہیں ہے۔ کوئی کسی بھی سطح پر اصلاح احوال کی تدبیر کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
صحت عوام کی سہولت میں سے ایک بے حد بنیادی اہمیت کی حامل سہولت ہے۔ جس سے اہل سندھ کی بڑی تعداد محروم ہے، خاص طور پر دیہی سندھ میں حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ ایک طرف تو خراب و خستہ روڈ اور راستے ہیں تو دوسری طرف صحت جیسی سہولت کی عدم دستیابی کی بنا پر بے چارے مریض شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں جو لاکھوں روپے کی دوائیں خریدی جاتی ہیں وہ مریضوں کو نہیں مل پاتیں۔ اکثر یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں شہر کے سرکاری اسپتال کی دوائیں خارج المعیاد ہونے کی وجہ سے کچرے کے قریبی ڈھیر پر پھینک دی گئیں۔ بری نہیں، بہت ہی بری صورت حال ہے۔ حکومت سندھ کو اس حوالے سے فی الفور ٹھوس قدم اُٹھانا چاہیے۔ غیر حاضر ڈاکٹروں اور طبی عملے کے خلاف سخت کارروائی کرکے تمام سرکاری اسپتالوں میں بنیادی صحت کی ساری سہولتیں مہیا کی جانی چاہئیں۔ سندھ میں بیماریوں کی تشخص کے لیے سرکاری سطح پر قائم کردہ پی پی ایچ آئی کے تشخیصی مراکز، لیبارٹریاں اور اسپتال نسبتاً بہت بہتر کام کررہے ہیں۔ ان کی کارکردگی کی تعریف کیے بغیر بھی نہیں رہا جاتا۔ اس سطح کا کام ہونا ضروری ہے۔