مجھے بھوکا مت مارو

476

حقیقت یہ ہے کہ وطن ِ عزیز کے موجودہ ٹیکس سسٹم میں ایسے قوانین موجود ہیں، جو امراء اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو آ گے بڑھاتے ہوئے مفلوک الحالی کے بوجھ تلے دبے عوام کی آواز حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ وہ یک آواز ہو کر کہہ اٹھے ہیںکہ سونا، گاڑی، سگریٹ اور پُرآسائش سب اشیاء مہنگی کر دو لیکن آٹا، چاول، دال، کوکنگ آئل اور چینی سستی کر دو۔ تمام روز مرہ زندگی کی اشیا خورو نوش مخلوق خدا سے پہلے ہی دور ہوچکی ہیں۔ غریب صارفین تو کیا سفید پوش طبقات بھی شدید سراسیمگی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس ملک میں غریب زیادہ ہیں۔ اللہ سے ڈرو، ان سے جینے کا حق نہ چھینو۔ حکمرانو اللہ کے سامنے پیش سب کو ہونا ہے۔ اچھے بھلے ملک کی معیشت اور امن و امان کا بیڑہ غرق کردیا۔ عوام کو اتنا مجبور نہ کرو کہ تمہارے گریبان ہوں اور ان کے ہاتھ ہوں۔
بات یوں ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کی کئی پرتیں ہیں۔ ایک طبقہ نوکرشاہی پر مشتمل ہے، یہ ریاستی مشینری کا حصہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس چھپانے اور بچانے میں کامیاب چلا آرہا ہے۔ ملک میں بلیک اکانومی کے پھیلاؤ کا ذمے دار یہی طبقہ ہے کیونکہ ریاست کے نام پر اس طبقے کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ ان اختیارات کی وجہ سے یہ خود بھی احتساب سے بچا ہوا ہے اور اس کی اپنے فرائض کی ادائیگی میں بددیانتی بلیک اکانومی اور جرائم مافیا کو بھی مضبوط کرنے کا سبب ہے۔ اسی طبقے کے اختیارات کے غلط اور بے جا استعمال کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکی اور مقامی سرمایہ کار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، یوں رشوت اور کک بیکس کا کلچر فروغ پایا جو زہر کی طرح ملک کے معاشرے اور ریاستی عہدیداروں میں پھیل گیا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس ریونیو کا حجم کم ہے، اس کا جواب کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جب ریاست کا نظام چلانے والے ریاستی طاقت کا استعمال کرکے اور قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو، اپنے خاندان کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھیں گے تو اس طبقے کے سرپرست سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، قبائلی سرداران و عمائدین و گدی نشین کیسے ٹیکس دیں گے۔ افغانستان اور ایران کی سرحد کے ذریعے غیرقانونی تجارت سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے، سب کچھ پتا ہونے کے باوجود اسے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کوئی قانون سازی کر رہی اور نہ عدلیہ نے کبھی سوموٹو نوٹس لیا۔
میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ آئی ایم ایف پروگرام کا احیاء ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد مرحلہ آئے گا تو مطلوبہ مقاصد کی جانب بڑھنے کے لیے عالمی قرضوں کی تنظیم نو پر غور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اگلے مالی سال میں 27ارب ڈالرز کی اصل اور مارک اپ رقم بیرونی قرضوں کی سروسنگ کے لیے ضرورت ہوگی۔ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت آئی ایم ایف کا 6.5ارب ڈالرز کا جاری پروگرام 30جون 2023 کو ختم ہو جائے گا۔ 30جون 2023 کے بعد جاری ای ایف ایف انتظامات میں مزید توسیع کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پاکستان کو موجودہ ای ایف ایف پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں کی سروسنگ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا آئی ایم ایف قرض لینا پڑے گا۔ تاہم اس وقت آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو ان سب سے ٹیکس ریونیو لینا ہو گا جو قومی خزانے میں حصہ ڈالنے کے قابل ہیں۔ 200ملین سے زیادہ آبادی میں سے صرف 3.5ملین ریٹرن فائلرز ہیں اس لیے ٹیکس آمدنی کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے نسخوں کے تحت حکومت نے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کے لیے منی بجٹ پیش کیا۔ آئی ایم ایف نے غیر ہدف شدہ سبسڈیز کو ختم کرنے اور دولت مندوں سے وسائل لے کر غریب طبقات کی جانب موڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت نے برآمدی شعبوں کے لیے پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کر دی اور کسان پیکیج ختم کر دیا حالانکہ پاور سیکٹر اور دیگر محکموں کی نوکرشاہی کو فری بجلی کی سہولت بھی ختم کرنی چاہیے تھی۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے سیلاب سے متعلق 472 ارب روپے کے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کی درخواست کی ہے اور فنڈ مشن نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ بی آئی ایس پی پروگرام کے لیے پہلے سے مختص رقم 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دی گئی ہے جس میں اضافے کی توقع ہے۔ پاکستان کو معاشی بحالی اور ترقی کے لیے متبادل پلان کی ضرورت ہے۔ اب تو آئی ایم ایف راضی ہوگیا ہے لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔ پاکستان کو اس موقع کو آخری موقع جان کر مستقبل کی معاشی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ ریاستی مشینری ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتی چلی آرہی ہے لیکن معیشت کو بہتر بنانے اور قانون کی سربلندی کے تناظر میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔ کیا ایک غریب اور بدحال ملک کی نوکر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟ بڑے بڑے سرکاری بنگلے، لاکھوں روپے تنخواہ اور لاکھوں روپے پنشن، سرکاری پروٹوکول، علاج و سفری سہولتیں، یہ سب سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہماری معیشت کے لیے ناسور ہے، معیشت کی کوئی سمت یا اصول و ضوابط موجود نہیں اور نہ ہی ٹیکس سسٹم موجود ہے، اس قسم کی معیشت جہاں بھی ہوگی، وہ ہمسایہ معیشتوں کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ صومالیہ افریقا کا افغانستان ہے، اس کی وجہ سے کینیا، نائیجیریا اور دیگر ممالک کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ یمن کی معیشت سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں بین الاقوامی اقتصادی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاتھا کہ پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان جارہے ہیں۔ ڈالر اسمگلنگ طالبان حکومت کی لائف لائن ہے، افغانستان کی یومیہ ضرورت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہے۔ جس سے افغانستان کی طالبان حکومت کو تو سہارا مل رہا ہے، لیکن پاکستان بربادی کے دہانے پر کھڑا ہوچکا ہے۔