کراچی:سندھ ہائی کورٹ نے کراچی یونیورسٹی میں 34 سال ملازمت کرنے والی لائبریرین کی واجبات سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔
سندھ ہائیکورٹ میں کراچی یونیورسٹی میں 34 سال ملازمت کرنے والی لائبریرین کی واجبات سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، رجسٹرار جامعہ کراچی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے رجسٹرار سے استفسار کیا کہ ایک شخص 1987 سے آپ کے پاس ملازمت کرتا رہا،آپ کو 2018میں اسے کنفرم کرنے کا خیال آیا۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ اتنی مدت تک یونیورسٹی کیا کرتی رہی ہے۔
رجسٹرار نے بتایا کہ میں اکنامکس کا پروفیسر ہوں، رجسٹرار کے عہدے پر اضافی زمہ داری ادا کررہا ہوں۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہائیکورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، عدالت انتظامی اسامیوں پر اساتذہ کی تعیناتی روک چکی ہے، اگر آپ کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تو یہاں کیوں آئے؟ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین کی ماضی کی مدت کا بھی جائزہ لیا جائے۔
جامعہ کراچی کے وکیل نے موقف دیا کہ بہتر ہے آپ فیصلہ کردیں، کیونکہ یہ فیصلہ کسی ایک شخص کو نہیں 18رکنی سینڈیکیٹ کو کرنا ہے، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ عارفہ صدیقی نے 34 سال جامعہ کراچی میں فرائض انجام دیئے۔
یونیورسٹی انتظامیہ پینشن پنیفٹ ادا نہیں کررہی۔ عدالت پہلے ہی معاملہ حل کرنے کا حکم دے چکی مگر عملدرآمد نہیں کیا جارہا، عدالت نے سینڈیکیٹ اجلاس میں لائبریرین کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دے تھا۔
درخواست گزار کی مدت ملازمت 10 سال سے کم ہے جسکی وجہ سے اسے پینشن بینیفٹ نہیں دے سکتے۔ درخواست گزار کی اپوائنٹمنٹ 34 سال پرانی ہے مگر انہیں کنفرم 2018 میں کیا گیا۔