ہر ایک کی نظر میں دوسرا ذمے دار

426

ایک زمانہ تھا کہ ہمارے بادشاہوں تک کی سوچ اتنی مثبت اور منصفانہ ہوتی تھی کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ اختیار و قدرت کی بات بے شک الگ سہی لیکن سوچ کا منصفانہ، مخلصانہ، مثبت اور دیانتدارانہ ہونا بھی اللہ کی بڑی دین ہے جس سے آج شاہ و گدا سب کے سب محروم ہیں۔ مجھے آج رہ رہ کر بہادر شاہ ظفر اور ان کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے کہ
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برئیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
پاکستان کی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک، خواہ وہ انفرادی حیثیت کا حامل ہو یا جماعتی نظم و ضبط کا پابند، وہ خود ہو یا جماعت، حتیٰ کہ پاکستان کے سارے چھوٹے بڑے ادارے، ان سب کی قریب کی نظریں کمزور ہی نہیں بلکہ سو فی صد اندھے پن کا اس بری طرح شکار ہیں کہ نہ تو انہیں اپنا کوئی عیب یا کمزوری نظر آتی ہے اور نہ ان کو اپنی ذمے داریاں دکھائی دیتی ہیں لیکن دوسروں کی آنکھوں میں پڑے باریک باریک تنکے بالکل صاف دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کا آدھے سے زیادہ بجٹ ہمارے سیکورٹی اداروں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ باقی ماندہ بجٹ سے بھی کسی نہ کسی ہنگامی حالت کا عذر پیش کرکے صوبوں اور وفاق سے وصول کر لیا جاتا ہے لیکن پھر بھی نہ پاکستانیوں کے اندر سے ان کا احساس عدم تحفظ دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور نہ ہی سرحدیں محفوظ دکھائی دیتی ہیں بلکہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ حالات خراب سے خراب تر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چوری، ڈاکازنی، مزاحمت پر گولی ماردینے جیسے سفاکیت کے مظاہرے اتنے عام ہوتے جا رہے ہیں کہ جب تک گھر سے باہر جانے والے گھر لوٹ کر نہیں آجاتے، والدین اور لوحقین کے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہی رہتے ہیں۔ ملک بھر کی پولیس شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہے ساتھ ہی ساتھ رونا اس بات کا ہے کہ ہمارا مقتدر ادارہ ہو یا شہری پولیس، بڑے بڑے جرائم میں اکثر ملوث دکھائی دیے ہیں جس کے بے شمار شواہد سامنے آنے کے باوجود ہنگامی بنیادوں پر اب تک کوئی موثر قدم اٹھتا دکھائی نہیں دیا ہے۔
عدالتوں کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف بر وقت انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں بلکہ وہ آئین و قانون کو سمجھنے اور ان کی تشریح تک کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہیں۔ اگر قانون دانوں کے نزدیک بھی ہر قسم کی آئینی تشریح میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے تو پھر یا تو پاکستان کا آئین ہی غلط ہے یا پھر اس کی تشریح اور وضاحت کرنے والے قانون اور آئین سے نابلد ہیں۔ جب سب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے درمیان کسی بھی آئین کی تشریح میں شدید اختلاف پایا جاتا ہو تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ یا وہ خود قانون کی سمجھ نہیں رکھتے یا قانون بنانے والے سارے کے سارے انگوٹھا چھاپ ہیں۔ عدالتوں میں ایک دو نہیں، ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہیں لیکن مجال ہے کہ عدلیہ کے ماتھے پر کوئی شکن ابھرتی ہو۔
کہتے ہیں کہ جمہوریت میں صرف اور صرف پارلیمان با اختیار ہوتی ہے اور حاکم ِ وقت کے تحت سارے ادارے سر جھکا کر کام کیا کرتے ہیں لیکن پارلیمان کا ایک ایک رکن اور اس کی اکثریت رائے سے بننے والا حاکم وقت گیٹ نمبر چار کی دیواروں سے کان لگائے کھڑا رہتا ہے کہ دیکھیں اندر سے کیا پیغام آنے والا ہے۔ اس تمام تر صورت حال کے باوجود ہر چھوٹا بڑا ادارہ اپنی ذمے داریوں سے زیادہ دوسروں کی ذمے داریوں پر نظر جمائے نظر آتا ہے۔ مقتدر ادارے سیاستدانوں کے کان مروڑنے اور جماعتوں کو توڑنے پھوڑنے میں اس لیے مصروف ہیں کیونکہ انہیں ساری خرابیاں اور عیب سیاستدانوں میں نظر آتے ہیں تو دوسری جانب سیاستدان ادروں کی بخیہ ادھیڑنے میں اپنی بڑائی سمجھے ہوئے ہیں۔ پارلیمان کیسے چلانی چاہیے، قانون سازی کے لیے کیا کیا اقدامات ناگزیر ہیں، ان سب پر غور کرنے کے بجائے، ملنے والے ترقیاتی فنڈز کو بغیر کسی منصوبے میں لگائے کس طرح اپنی اپنی تجوریوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے، اس میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عوام انفرادی لحاظ سے اور جماعتیں، جماعتی نقطہ ٔ نظر سے اپنی اپنی ذمے داریاں سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنا سب کے نزدیک جیسے گناہِ عظیم بن چکا ہے اور یہی حال پاکستان کے ہر ادارے کا ہے۔ اگر ادارے، جماعتیں، حکومتیں، سیاستدان اور تمام محکمے دوسروں کے عیبوں اور ان کی کمزوریوں پر نظر رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، مقتدر ادارے اپنی مرضی کے حکمران لانے، جماعتیں بنانے اور نئے نئے تجربے کرنے کے بجائے صرف اور صرف اپنی اپنی آئینی، اخلاقی اور قانونی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی و خوش حالی کی جانب گامزن نہ ہو سکے۔
اتنا کچھ بگڑ جانے کے باوجود بھی اب تک کی صورتِ حال یہی بتا رہی ہے کہ اقتدار پر قابض ادارے اقتدار اصل وارثوں، یعنی عوام کے سپرد کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں یہی وجہ ہے 2018 سے قبل سے لیکر اب تک کا سارا اسکرپٹ ایک ہی ہاتھ سے لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر ایک ویسے کا ویسا ہی منہ زور نظر آ رہا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر 2023 میں الیکشن ہوئے بھی تو ’’مرضی‘‘ والا ہی تختِ شاہی پر بٹھایا جائے گا۔ کہانی کا کوئی ایک کردار بھی نہیں بدلا، وہی ادارے اور ان کی مرضیاں ہیں، وہی عدلیہ کا حال ہے، وہی پارلیمان کی دھما چوکڑیاں ہیں، اسی انداز کی پکڑ دھکڑ ہے، وہی تبرے بازیاں ہیں، وہی گالم گلوچ ہے اور وہی مناظر ہیں جو اب ہماری سیاست کا خاصہ بن چکے ہیں۔ لہٰذا کسی کا یہ سوچنا کہ سیاستدانوں نے بوٹ چاٹ کھانا بند کردی ہے اور قابضین نے اقتدار طشتریوں میں سجا کر اصل وارثین کے حوالے کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے تو یہ سب احمقانہ خیال سے زیادہ اور کچھ نہیں۔