5،6 مارچ کو ریکارڈ گولی چلی اور لاہور کے مال روڈ کو فدائیان ختم نبوت کے خون سے رنگین کر دیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے عین مطابق قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاریاں کرنے لگے وزیر خارجہ موسیو ظفر اللہ خان قادیانی نے سرکاری وسائل کو قادیانیوں کے لیے مختص کردیے، پاکستانی سفارت خانوں کو ارتدادی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کر دیا۔ مرزا بشیرالدین محمود نے بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ 1952ء کو ’’احمدیت‘‘ کا سال قرار دیا، اس وقت امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے 1953ء کو تحریک ختم نبوت کا سال قرار دینے کا اعلان کیا اور تمام مکاتب فکر کے سرکردہ رہنما احرار کی میزبانی میں کراچی میں اکٹھے ہوئے اور مولانا ابوالحسنات قادری کی سربراہی میں آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا مبارک قیام عمل میں لایا گیا اور 4چار مطالبات متفقہ طور پر طے پائے۔
1۔ لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
2۔ مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔
3۔ موسیو ظفر اللہ خان سے وزیر خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے۔
4۔ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔
مسلم لیگی اور حاجی نمازی حکمرانوں نے امت مسلمہ کے مطالبات پر ہمدرددانہ غور کرنے کے بجائے یہ کہہ کر کہ ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ امریکا ناراض ہوجائے گا۔ اس وقت علماء اور کارکن، فدائیان احرار، عشاق ختم نبوت، اور رہنما سینہ تان کر سڑکوں پر امڈآئے اور مملکت خداداد پاکستان کی سرزمین پر ہزاروں فرزندان اسلام کے سینے محض اس لیے چھلنی کردیے گئے کہ وہ نشہ ٔ عشق محمدؐ سے سرشار ہوکر مقام رسالت اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا حق مانگتے تھے، لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ قادیانی جماعت کی فرقان بٹالین نے فوجی وردیاں پہن کر نہتے مسلمانوں کو شہید کیا، سکندر مرزا نے فرعونیت کا مظاہرہ کیا پانچ چھے مارچ 1953ء کو مال روڈ پر ریکارڈ گولی چلی، میرے بڑے شاہ جی سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ نے بتایا کہ لاہور میں گولیاں چل رہی تھیں اور مجھے رات کو خواب میں جناب آقاؐ کی زیارت ہوتی ہے، آقاؐ کا جسم اطہر سفید کفن میں تڑپ رہا ہے اور باہر عاشقان رسولؐ کے سینے گولیوں سے چھلنی ہورہے تھے۔ تڑپتے لاشوں کو اٹھانا بڑا مشکل کام ہے، ہم نے اٹھائے ہیں، اور نشہ ٔ عشق محمدؐ سے سر شار ہزاروں شہداء کے وارث ہونے کے ناتے ہم ناتواں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک جان میں جان باقی ہے جان اسی مشن پر نچھاور ہے، مارچ میں ہم اپنے شہداء 1953ء کی یاد میں ممکن حد تک جگہ جگہ شہداء کی یادوں کی شمع روشن کرتے ہیں۔
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
آج مسلم لیگ اور اتحادیوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں سے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ ختم نبوت کے دشمنوں کو نوازنے کا سلسلہ بند کردیں ورنہ 1953ء کے حکمرانوں کا انجام یادرکھیں۔ بطل حریت شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ بلا شبہ اس وقت تحریک پسپا ہو گئی۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد لادین عناصر کا حوصلہ بڑھ گیا۔ ملک غلام محمد نے انقلاب برپا کیا تو سردار عبدالرب نشتر کو بھی ان کے اسلامی ذہن کی پاداش میں کابینہ سے حذف کر دیا۔ میاں مشتاق احمد گورمانی وزیر داخلہ تھے مولانا ظفر علی خاں کی شدید علالت کے پیش نظر راقم انہیں مولانا اختر علی خاں کی رہائی پر آمادہ کر رہا تھا کہ ان کے دولت کدہ پر سکندر مرزا آگئے۔ مرزا ان دنوں ڈیفنس سیکرٹری تھے انہیں معلوم ہوا کہ مولانا اختر علی خاں کی رہائی کا مسئلہ ہے تو بھڑک اٹھے۔ فرمایا کہ وہ رہا نہیں ہو سکتے راقم نے عرض کیا کہ ان کے والد بیمار ہیں۔ کہنے لگے کہ وہ خود تو بیمار نہیں؟ راقم نے کہا کہ ان کے والد کی عظیم خدمات ہیں اسی کے پیش نظر اختر علی خاں کو رہا کر دیا جائے۔ سکندر مرزا نے باپ اور بیٹے دونوں کو گالی لڑھکا دی اور کہا دونوں کو مرنے دو راقم نے مرزا صاحب کو ٹوکا کہ ہفتہ پہلے آپ کا بیٹا ہوائی حادثہ میں موت کی نذر ہو گیا ہے اس قسم کے الفاظ آپ کو نہ بولنا چاہئیں۔ گورمانی صاحب نے راقم کے تیور دیکھ کر صحبت ختم کردی، لیکن مرزا صاحب نے فرمایا یہ کابینہ کی غلطی ہے کہ اس نے ان ملاؤوں کو پھانسی نہیں دی ہمارے مشورہ کے مطابق پندرہ بیس علماء کو وار پر کھنچوا دیا جاتا یا گولی سے اڑا دیا جاتا تو اس قسم کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات ہوجاتی ’جس صبح دولتانہ وزارت برخاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا، ’مجھے یہ نہ بتاؤ فلاں جگہ ہنگامہ فروہو گیا یا فلاں جگہ مظاہرہ ختم کر دیا گیا۔ مجھے یہ بتاؤ وہاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی؟‘‘ عبدالرب نشتر سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو فرمایا ’’جن لوگوں نے شیدائیان ختم نبوت کو شہید کیا اور ان کے خون سے ہولی کھیلی ہے میں اندر خانہ کے راز دار کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے؟‘‘ اور وہ کن حادثات و سانحات کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب کا اطمینان سلب کر لیا اور ان کی روحوں کو سرطان میں مبتلا کردیا ہے۔ آج قرآن وسنہ میں قادیانی تحریفات منظر عام پر آچکی ہیں اور سرکاری ادارے اور پولیس ربوہ برانڈ ارتداد کو بچانا چاہتے ہیں، ہمارے دوست راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ اسلام آباد ہائی کورٹ لیگل کمیشن آف سیفمی پاکستان کے پلیٹ فارم سے سر دھڑ کی بازی لگا کر سوشل میڈیا پر توہین مذہب وتوہین رسالت کے حوالے سے نہایت جرأت مندانہ قانونی کردار ادا کررہے ہیں، تازہ ترین احوال کے مطابق قانون کے راستے سے اب تک،95بد بخت ملزمان کو گرفتار کرواچکے ہیں، جب کہ 51مقدمات مزید دائر ہوچکے ہیں، دینی حلقوں سے زیادہ حکومتی حلقوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس صورت حال کو سنجیدگی سے لیں ورنہ ملک کے حالات پہلے ہی زیرو زبر ہوچکے اور جمہوریت کے پردے ہیں، جو ہوا اور ہونے جارہا ہے، اس کے تصور سے بھی ڈر لگتا ہے، اول تا آخر ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں۔