آج ہمارے کالج کے پروفیسر شہزاد بھنگر ایک بار پھر کسی بات پر بے حد برہم ہو رہے تھے اور ایک ہی جملہ وقفہ وقفہ سے دہرائے جارہے تھے کہ ’’ہم ایک بے ہنگم ہجوم ہیں اور بس!!‘‘ میں نے ان سے ان کے غصے اور ناراضی کی وجہ جاننی چاہی تو جواب میں وہ ایک طرح سے پھٹ ہی پڑے اور فرمانے لگے۔ آج صبح جب میں اپنی گاڑی پر حسب معمول کالج آرہا تھا تو سڑک پر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے کئی ٹرک ڈرائیوروں کو بھتہ وصولی کے لیے گھیر رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے دو طرفہ ٹریفک معطل ہو گئی تھی دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی اور مسافر ٹریفک رواں ہونے کے منتظر تھے۔ میرا کافی وقت ضائع ہو گیا اور اس پر جو بے حد ذہنی کوفت اور اذیت اٹھانی پڑی وہ الگ ہے۔ میں نے جب گاڑی سے اتر کر قریب جا کر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو اس ساری صورت حال کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے شرم و عار دلائی تو تب کہیں جا کر معطل ٹریفک بحال ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ میرے علاوہ سب یہ سارا منظرنامہ بڑی خاموشی کے ساتھ دیکھنے میں محو تھے۔ سب کی زبانوںپر گویا تالے پڑ گئے ہوں اور کسی فرد نے بھی اپنی گاڑی سے اتر کر ٹریفک پولیس والوں سے اس بات پر احتجاج نہیں کیا کہ ان کی بھتہ وصولی کے باعث سارا ٹریفک رکا ہوا ہے۔ بس یہی بات سوچ کر میرا بلڈپریشر مجھے ہائی ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
پروفیسر صاحب کی یہ بات بلاشبہ بالکل سچ تھی کہ ہم واقعی ایک منظم اور مرتب قوم بننے کے بجائے ایک بے ہنگم ہجوم میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ درآں حالیکہ بانی پاکستان سمیت ہمارے سارے قومی رہنما کتنے منظم اور منضبط زندگی کے حامل تھے۔ لیکن ہم نے انہیں اپنا آئیڈیل نہیں بنایا۔ ہمارا دین اسلام بھی ہمیں اپنی زندگی نظم و ضبط کے ساتھ گزارنے کی تلقین اور تاکید کرتا ہے۔ آج ان تعلیمات کے برعکس
ہم جس بے ہنگم انداز میں اپنی انفرادی اور قومی زندگی گزار رہے ہیں اس کے مظاہر اور تلخ نتائج ہمیں ہر شعبہ زندگی میں آئے دن قدم قدم پر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس کے باوصف ہم کوئی سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی عبرت پکڑتے ہیں۔ آج کل آٹے کا شدید بحران ہے جس کی وجہ سے حکومت سندھ کی جانب خود پر تنقید سے بچنے کے لیے مختلف علاقوں میں بطور فیس سیونگ سرکاری مقرر کردہ کم نرخوں پر کئی کئی دن گزرنے کے بعد آٹے کی بوریوں سے لدے ٹرک بھیج کر عوام پر ’’احسان عظیم‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ مذکورہ ٹرک کی اپنے اپنے علاقے میں آمد کی خبر سنتے ہی بہت بڑی تعداد میں ضرورت مند مرد و خواتین اسے بے ہنگم انداز میں گھیر لیتے ہیں۔ یہی کام اگر ترتیب اور سلیقہ کے ساتھ سرانجام دیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ اسی طرح سے بے نظیر انکم سپورٹ کے دفاتر اور نادرا دفاتر کے باہر بھی سیکڑوں کی تعداد میں ایک بے ہنگم ہجوم نظر آتا ہے۔ کئی لوگ بھگڈر مچنے سے زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو محض افوہ سن کر ہی بہت
سارے لوگ اپنے اپنے گھروں سے گاڑیوں کی ٹنکیاں پھروانے یا کین اور بوتلوں میں پٹرول لینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اس موقع پر بھی جو ہنگامی صورت حال جنم لیتی ہے اور افراتفری بھگدڑ دیکھنے کو ملتی ہے اس سے توبہ ہی بھلی! ہمیں بے ترتیب اور غیر منظم دیکھ کر ہی حکومت کے ذمے داران کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ جب جی میں آتا ہے من پسند فیصلے کر کے ہم پر تھونپ دیتے ہیں۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ہمیں تاحال بار بار کے تلخ تجربات کے باوجود حکمران طبقہ سے اپنے جائز حقوق لینے کا شعور اور ادراک حاصل نہیں ہو سکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان تک بھی دکھائی نہیں دیتا ہم اگر ایک منظم اور مرتب قوم ہوتے تو کیا آج حکمران طبقہ کے ہاتھوں ہماری یہ حالت زار ہوتی؟ حکمران بھی بہ خوبی یہ بات جان گئے ہیں کہ ہم جن لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ بس ایک بے ہنگم ہجوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران جب چاہیں آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے ہم پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کر دیں۔ اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا دیں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کر دیں کوئی انہیں پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان کی عیاشیوں پر کوئی روک ٹوک کرنے والا۔ اگر کراچی میں شبانہ روز محنت اور سعی بسار کے بعد عوامی حمایت سے حافظ نعیم الرحمن جیسا مخلص، باصلاحیت، دیانت دار، پرعزم اور وژنری رہنما میئر بننے لگتا ہے تو مقتدر حلقوں سمیت ساری سیاسی پارٹیاں ان کی راہ محض اس لیے روکنے لگتی ہیں کہ حافظ صاحب کی میئر بننے کے بعد اپنے مقاصد میں کامیابی سے سارے ملک میں ہی موصوف کی سی فکر و نظر اور عمل کی قیادت ابھر کر سامنے آجائے گی اور سب استحصالی گروہوں کا صفایا ہو جائے گا۔ آج ہر قانون شکن، ذخیرہ اندوز اس بات کو جان گیا ہے کہ ہم پر قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہو گا۔ ہمارا گریبان کوئی نہیں تھامے گا۔ اس لیے ہر کوئی من مانی کرتا ہے۔ ذخیرہ اندوز ضروری اشیائے صرف کا ذخیرہ کر لیتے ہیں تا کہ مستقبل میں انہیں حسب منشاء مہنگے داموں فروخت کیے جانے کی اطلاعات ثبوت کے ساتھ پرنٹ، سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر آنے کے باوجود کسی ذمے دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ڈہرکی کے بعد اب کندھ کوٹ کشمور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے قبضے میں درجن بھر مغویوں کی وڈیووائرل ہوئی ہے جس میں ایک مغوی اشفاق بنگلانی کو ڈاکوئوں نے بلاوجہ اس کی ٹانگ میں گولیاں مار کر اسے شدید زخمی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایس ایس پی گھوٹکی نے جسٹس ہائی کورٹ سندھ کے سامنے برملا اعتراف کر لیا ہے کہ پولیس فورس میں جدید ہتھیاروں سے لیس ڈاکوئوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ جب انار کی کا یہ عالم ہو، حکومت کی رٹ عملاً ختم ہو چکی ہو، اعلیٰ ضلعی افسران تک بھی کھلے عام اور بے خوف و خطر بدعنوانی اور قانون شکنی میں ملوث ہو جائیں تو پھر اس کا انجام معلوم! اس صورت میں ہماری طرح کے معاشروں سے حقیقی زندگی کا اخیر ہونے لگتا ہے۔ ہم بھی اس راستے پر بڑی تیزی کے ساتھ گامزن ہیں اللہ ہمیں ایک بے ہنگم ہجوم سے ایک منظم اور مرتب قوم بنا دے لیکن اس کے لیے بھی خالق حقیقی کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا