قصور وار کون؟ اور سزا کس کے لیے؟

467

آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایک سو ستر ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کے لیے پارلیمنٹ میں منی بجٹ پیش کیا گیا ہے جو منظور بھی ہوجائے گا۔ اس میں جہاں بجلی گیس اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہیں پٹرول اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز بعد اضافہ الگ ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق تو جنوری سے کیا جارہا ہے۔ یوں آنے والے دنوں میں عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہوگا۔ یہاں یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ ایک طرف بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے گردشی قرضوں میں کمی کی کوشش کی جارہی ہے تو ساتھ ہی عوام کو بھی زیر بار ہونا پڑ رہا ہے۔ ہاں مگر جس شاہ خرچی کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں وہ یہ ہے کہ واپڈا اور کے الیکٹرک کے عام ملازمین سے افسران تک کو تین سو سے تیرہ سو یونٹ ماہانہ مفت دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سوئی گیس کے ملازموں کی تنخواہوں کا الگ اسکیل ہے، جس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ کلرک کی تنخواہ سرکاری گریڈ 17 کے افسر سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ رعایتیں اور فریق ختم کردیا جائے تو عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تقریباً ایک ہفتے تک آئی ایم ایف کے ذمے داران پاکستانی حکام سے مذاکرات کرتے رہے جس کے بعد ورچوئل اور دیگر انداز میں یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یقین ہے کہ قرض کی قسط کے لیے منظوری حاصل ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کتنی ہی سخت ہوں اور حکومت انہیں پورا کرے یا نہ کرے اقساط تو ملتی رہیں گی۔ اس لیے کہ دنیا پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف نہیں لے جائے گی کیونکہ پاکستان ایک نیوکلیئر اسٹیٹ ہے اور اسے بے سہارا چھوڑ کر امریکا مغرب چین اور دیگر دوست اسلامی ممالک سے کسی قسم کا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران جن شعبوں میں ٹیکس لگانے کی بات ہوئی ان کا براہ راست اثر عام اور غریب آدمی ہی پر پڑے گا۔ یہ دعوے کہ اہل ثروت کو زیر اثر لایا جائے گا، خام خیالی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ان مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی ٹیم بجلی، گیس اور دیگر ضروری اشیا پر مزید ٹیکس لگانے کی بات کرتی رہی مگر کبھی یہ سننے میں نہ آیا کہا نہوں نے حکومت کے بڑھتے ہوئے حجم پر بھی قدغن لگانے کی بات کی ہو۔ آج کل وفاقی کابینہ کے وزرا، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 80 سے زائد پر مشتمل ہے، یعنی موجودہ حکومت کا ہر دوسرا رکن پارلیمنٹ وزیر یا مشیر ہے۔ منی بجٹ پیش کرتے وقت وزیر خزانہ نے یقین دلایا تھا کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرے گی مگر تازہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم ہائوس کے اخراجات بجٹ میں منظور شدہ سے زائد ہوچکے ہیں اور فوری طور پر وزارت خزانہ سے سات کروڑ سے زائد رقم مانگی جارہی ہے۔
آئیے ذرا غور کریں کہ ملک کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے لیے ٹیکسوں کی ضرورت ہے یا کابینہ کے ارکان کی تعداد کو محدود کرکے بھی یہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تو ذرا توجہ فرمائیں 80 سے زائد وزرا، ان کے لیے گاڑیاں، ڈرائیور ، گارڈ، دفاتر، دفاتر کا عملہ، ان کے اور ان کے خاندان کے لیے طبی سہولتیں اور ان سب کے لیے تنخواہیں وغیرہ۔ اور پھر ان کی وجہ سے ہونے والی کرپشن، اگر کابینہ کی تعداد 15 یا 20 تک محدود کردی جائے تو غریب اور مفلوک الحال عوام پر اتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ذرا اس جانب توجہ فرمائیں ریٹائرڈ ججوں کی پنشن 10 لاکھ روپے، 2 ہزار یونٹ بجلی مفت، 300 لیٹر پٹرول ماہانہ دیاجارہا ہے۔ دیگر محکموں کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی سہولتیں اور مراعات کیا ہیں؟ اس کا اندازہ نہیں، ہاں البتہ ریلوے اور پی آئی اے تباہ حال ہے، ان میں عیاشیوں کا یہ عالم ہے کہ ریلوے اور پی آئی اے کے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مفت سفری سہولتیں حاصل ہیں۔ ذرا سوچیے ایک ایسے ملک پر جہاں ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی ہوں اِن شاہ خرچیوں کا کیا جواز ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے تو درآمدات پر پابندی لگی ہے مگر ان حالات میں بھی وزرا، مشیروں، سرکاری افسران اور اہل ثروت افراد کے لیے بڑی گاڑیوں کی درآمد، شراب، سگار اور دیگر قیمتی اشیا کا سلسلہ جاری ہے جو زرِمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بعض دوست ممالک نے اسٹیٹ بینک میں 7 ارب ڈالر بطور امانت رکھوائے تھے اور آج کل زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم امانت میں خیانت کے مرتکب بھی ہوچکے۔
بازاروں میں چلے جائیں بچوں کے کھلونوں سے لے کر ضرورت کی ہر شے اور سامان خورونوش تک درآمد کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر دالیں، چنا، خشک دودھ، املی، زیرہ، لونگ، الائچی، کالی مرچ، دار چینی، بادام، پستے، ناریل، زیتون، سرسوں اور کھانے کا تیل، گھی، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، ادویات کا خام مال، خوشبویات، کپڑوں کی رنگائی کا سامان۔ گویا وہ کون سی چیز ہے جو ملک میں پیدا یا تیار ہورہی ہو۔ شاید چینی و چاول دو ایسی اشیا ہیں جس میں ہم خود کفیل ہیں مگر ان دونوں کی قیمتیں بھی بڑھتی مہنگائی میں غریب کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ گندم تک ہمیں درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ دو سال پہلے تک مرغی کا گوشت زیادہ سے زیادہ تین سو روپے تک دستیاب تھا جس کی قیمت بڑھتے بڑھتے 700 روپے کلو تک جاپہنچی ہے، کس کس چیز کا ذکر کریں اور کس کس کا رونا روئیں۔
یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہے دوسری طرف زراعت کو ترقی دینے کے بجائے زرعی زرمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنائی جارہی ہیں۔ ملتان اور گردونواح میں آموں کے لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ پچاس ساٹھ سال پہلے تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے گئے اس کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ بظاہر ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر اجناس کی ضروریات پورا کرنے کے لیے انحصار درآمدات پر ہے۔ فصلوں کی بوائی کے وقت کسان کھاد کے لیے مارا مارا پھرتا ہے۔ اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس کی فروخت کے لیے پریشان نظر آتا ہے۔ جب کسان کی سرپرستی ہی نہ ہوگی تو حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ صنعتی ترقی کا پہیہ رُک سا گیاہے، اگر ہم خود انحصاری کی طرف چلیں تو ہی نجات کی کوئی راہ ہوسکتی ہے۔ ہمیں درآمدات پر انحصار کو کم کرتے ہوئے ملکی اشیا پر توجہ دینی ہوگی ورنہ وہ دن دور نہیں جب سری لنکا والی کیفیت سے ہمیں بھی دوچار ہونا پڑے گا۔
ڈاکٹر یونس حسنی اپنی تصنیف ’’گہرے ہائے شب چراغ‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
’’برصغیر کی مسلم ریاستوں میں ریاست ٹونک کو ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔ اس ریاست میں اسلامی قوانین نافذ تھے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اسلامی قوانین مکمل طور پر نافذ تھے مگر یوں بھی نہ تھا کہ محض نکاح و طلاق کے امور شریعت کے سپرد کرکے زندگی کے اکثر امور انگریزی قانون کے حوالے کردیے گئے ہوں۔ البتہ زندگی کے اکثر امور پر شرعی قوانین کا اطلاق ہوتا تھا۔ دیت و قصاص، چوری اور زنا، تقسیم وراثت، حق شفعہ، بیع وہبہ غرض معاملات حیات کا بڑا حصہ قوانین اسلامی کے تحت تھا‘‘۔
قاضی عرفان صاحب کی نظامت کا زمانہ تھا کہ ٹونک میں شدید امساک باراں ہوا۔ راجستھان کے ریگستان میں بارش نہ ہونا بڑا قیامت خیز ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف بادیہ نشیں ہی کرسکتے ہیں۔ انسان غلہ کو اور جانور چارے کو ترسنے لگے۔ جانور تو مر ہی رہے تھے کبھی کبھی انسانی اموات کی بھی اطلاعات ملنے لگیں۔ نواب سعادت علی خان دوڑے دوڑے قاضی صاحب کے پاس آئے عرض کی کہ آپ میدان میں چل کر نماز استسقا پڑھادیں اور بارش کے لیے دعا فرمائیں۔ قاضی صاحب نے فرمایا ’’کیوں نماز میں کیوں پڑھائوں‘‘؟ قحط تو حکمرانوں کی بداعمالی سے پڑا کرتے ہیں۔ اس لیے آپ نماز پڑھائیں اور اس طرح کہ برہنہ پائوں اور چادر اُلٹ رکھی ہو، میں مقتدی کے طور پر نماز میں حاضر رہوں گا۔ چناں چہ نواب صاحب نے یہی کیا۔ اعلان ہوا کہ مادھو والی کے میدان میں نماز استسقا ادا کی جائے گی۔ جس کی امامت حضور پُرنور فرمائیں گے۔ ایک خلقت جمع ہوگئی، نواب صاحب امامت کے لیے آئے، برہنہ سر اور برہنہ پائوں اور اُلٹ کر چادر کندھوں پر ڈالے ہوئے۔ نماز استسقا پڑھائی اور اس کے بعد روتے جاتے اور دعا کرتے جاتے تھے کہ ’’یا اللہ! میرے گناہوں میں میری رعایا کو نہ پکڑ ان پر رحم فرما اور ان کے طفیل مجھے بھی معاف فرمادے‘‘۔ اس نماز کے شرکا کا بیان ہے کہ ابھی لوگ مادھو والی کے میدان سے پوری طرح نکلے بھی نہ تھے کہ بارانِ رحمت نے آلیا اور موسلادھار بارش ہوئی۔
آج ہمارے ملک کی یہی حالت ہے ہم قرضوں کی ادائیگی تو کجا سود ادا کرنے کے قابل بھی نہیں۔ زرعی پیداوار بھی ناکافی ہے۔ ان حالات میں حاکم وقت میاں شہباز شریف ٹونک کے حکمران نواب سعادت علی خان کی تقلید کرنا پسند کریں گے۔