میں اپنی بات رکھنے سے قبل دو تحریریں منقول کرنا چاہوں گا تاکہ جو مختصر سی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکے۔ پہلی تحریر کچھ یوں ہے کہ ’چھوٹی کلاسوں کے ایک ذہین بچے سے اس کی ٹیچر نے ایک سوال میز پر تین سیب رکھنے کے بعد کچھ یوں کیا کہ گن کر بتاؤ تمہارے پاس کل سیب کتنے ہیں۔ بچے نے ہر سیب پر انگلی رکھنے کے بعد دل ہی دل میں ان سیبوں کو گنا اور ٹیچر سے کہا، میڈم میرے پاس چار سیب ہیں۔ ٹیچر کلاس کے سب سے ہونہار اور ذہین بچے کا جواب سن کر بہت حیران ہوئی۔ کچھ تحمل سے کام لیا اور یہ سمجھ کر کہ بچے سے کچھ بھول ہو گئی ہے، اس نے دوبارہ کہا کہ اچھا دوبارہ گن کر بتاؤ کہ تمہارے پاس کل کتنے سیب ہیں۔ بچے نے اسی انداز میں ہر سیب پر انگلی رکھ رکھ کر سیبوں کو دل ہی دل میں گنا اور کہا میڈم میرے پاس کل چار سیب ہیں۔ دو تین بار دہرائے جانے کے بعد جب مسلسل جواب تین کے بجائے چار سیب ہی دیا گیا تو میڈم اپنے غصے پر قابو نہ پا سکیں اور کسی حد تک بلند آواز میں کہا کہ تین کے بجائے تم چار سیب کیوں کہے جا رہے ہو جس پر بچے نے کہا کہ میڈم آپ پوچھ رہی ہیں کہ میرے پاس کل سیب کتنے ہیں تو تین تو یہ ہیں جو ٹیبل پر رکھے ہیں اور ایک میرے بیگ میں میری امی نے میرے لنچ کے لیے رکھا ہے‘۔
دوسری تحریر کچھ یوں منقول ہے کہ ’شادی کے کچھ ہی ماہ بعد ایک دن بیٹی ماں کے گھر آئی تو بہت غصے اور غم کی حالت میں تھی۔ ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رہ سکتی۔ وہ اور اس کے گھر والے اس کے ساتھ بہت ظلم کرتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے شوہر کو قتل کردوں۔ ماں نے بیٹی کی بات بہت تحمل سے سنی اور اس کو سمجھایا کہ تم زیادہ جذباتی مت بنوں۔ ایسے شوہر کو مار ہی دینا اچھا ہوتا ہے۔ میں تمہیں ایک ایسا زہر دونگی کہ تمہارا شوہر آہستہ آہستہ کچھ مہینوں میں مر جائے گا۔ لیکن بیٹی جیسا کہ تم بتا رہی ہو کہ تمہارا شوہر تم سے روز جھگڑا کرتا ہے اور شوہر کے گھر والے بھی تمہاری مخالفت کرتے ہیں اس لیے وہ خواہ کتنے ہی عرصے میں مرے، سب لوگ تمہارے اوپر ہی شک کریں گے اور اگر پوسٹ ماٹم کروالیا تو زہر کی تصدیق بھی ہو جائے گی اس لیے میری نصیحت ہے کہ تم اس سارے دورانیے میں شوہر اور گھر والوں کے ساتھ مثالی سے بھی بڑھ کر رویہ رکھو۔ ساس، سسر، نندوں اور شوہر کے ساتھ اتنا اچھا رویہ رکھو کہ سب ہی تمہاری تعریفوں کے پل باندھنے لگیں تاکہ شوہر کے مرنے کے بعد کوئی بھی تم پر ذرہ برابر بھی شک نہ کر سکے۔ بات بیٹی کی سمجھ میں اچھی طرح آ گئی اور وہ اپنی اماں سے زہر کی پڑیا لے جاکر ہر روز اپنے شوہر کو کھانے کے ساتھ ملا کر دینے لگی۔ چند ہی ہفتوں کے بعد بیٹی گھر آئی تو رو رو کے ماں سے کہنے لگی کہ ماں خدا کے لیے جو زہر آپ نے مجھے دیا تھا اس کا تریاق بھی جلدی سے مجھے بتادیں۔ میرا سارا سسرال میری خوش اخلاقی کی وجہ سے میرا دیوانہ ہو گیا ہے، پوری برادری میں میری سلیقہ مندی اور اخلاق کے چرچے ہونے لگے ہیں۔ شوہر کا یہ عالم ہے کہ میرے منہ سے نکلے الفاظ اور فرمائشیں جیسے موتیوں میں تول کر رکھ دے گا۔ میرا اتنا خیال رکھنے لگا ہے کہ جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ ایسے عالم میں میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ اسے موت آجائے۔ ماں کچھ کرو اگر میرے شوہر کو کچھ ہوا تو میں بے موت مر جاؤں گی۔ یہ سن کر ماں نے بیٹی کو اپنے کلیجے سے چمٹا لیا اور کہا کہ پگلی میں نے تجھے زہر کی پڑیا نہیں ہاضمے کا چوران دیا تھا۔ زہر تو خود تیرے اندر بھرا تھا جس کو تو نے باہر نکال دیا‘۔
ہم نہ جانے کتنے فرقوں میں بٹ چکے ہے۔ اب تو مذہب اور مسلک کے اختلافات پس ِ پردہ چلے گئے ہیں اور سیاسی اختلافات ایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جو آنکھوں کے سامنے تین سیب کو بار بار چار کہے جا رہا ہو ہم اسے جان تک سے مار دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس سے تین کو چار کہنے کا سبب دریافت کریں، اس کا اصل موقف جاننے کی کوشش کریں، اس کی گردن زدنی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی عفریت اتنی خوفناکیت اختیار کر چکا ہے کہ ہم اپنی پارٹی، اپنی پارٹی کے رہنما اور پارٹی کے منشور کے آگے کسی دوسرے کی بات سننے اور اس کا موقف جاننے کے لیے تیار ہی نہیں بلکہ ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ سامنے کھڑی ہر شکل کو بگاڑ کر رکھ دیا جائے بلکہ ہو سکے تو اس کو زمین میں زندہ گاڑ دیا جائے۔
جب تک ہم نظر آنے والے تین سیبوں کو چار کہنے والوں کا موقف جاننے کی کوشش نہیں کریں گے، جب تک ہر سیاسی، مسلکی، مذہبی اور سیاسی پاٹی اپنے اپنے نفرتوں کے زہر کو اپنے اندر سے اگل کر اپنے جسم سے باہر نکال نہیں پھینکے گی اس وقت تک یہ سوچنا کہ ملک میں امن و سکون بحال ہو جائے گا اور ملک آگے کی جانب اپنے سفر کو جاری رکھ سکے کا، مجذوب کی بڑ تو ہو سکتی ہے کسی ہوش مند کی بات کبھی نہیں ہوسکتی۔ ملک میں خوشحالی بحال کرنی ہے، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا ہے اور جمہوریت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہے تو ہر فرد و جماعت کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنا ہوگا، اپنی اپنی نفرتوں کے زہر کو اپنے دل و دماغ سے نکالنا ہوگا تب کہیں جاکر ہم دنیا میں ایک باوقار ملک بن کر ابھر سکیں گے۔الرحمن