بچپن میں ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک بوڑھے باپ نے جانوروں کے چارے کا گٹھا سر پر لاد کر اپنے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ دروازے کا قد چارے کے گٹھے سمیت آدمی سے چھوٹا ثابت ہوا اس لیے بوڑھے شخص کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ چارے سمیت اندر کیسے داخل ہو۔ اس کی مشکل اور کوشش کو گھر کے صحن میں بیٹھے اس کے نوجوان بیٹے بھی دیکھ رہے تھے۔ اس کا ایک بیٹا شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور وہ ان دنوں چھٹی پر گھر میں موجود تھا۔ اس نے باپ کی مشکل کا اندازہ لگا کر اسے مختلف ہدایات دینا شروع کر دیں۔ ’’ابا جان! سر تھوڑا سا نیچے کر کے، گھٹنے جھکا کر چلنے سے گزر جائیں گے، ابا جان! تھوڑا سا دائیں جانب ہوں، تھوڑا سا اور جھکیں، گٹھا مضبوطی سے پکڑ کر کندھوں کو تھوڑا سا خم دیں‘‘۔
پڑھا لکھا بیٹا یہ ساری ہدایات دے رہا تھا لیکن ان پڑھ بیٹے نے جب دیکھا تو کسی بات کا انتظار نہ کیا۔ نہ باپ کے مدد طلب کرنے کا، نہ باپ کے گرنے کا، نہ اسے کوئی ہدایت دی بلکہ فوراً آگے بڑھ کر باپ کے ہاتھوں سے چارے کا گٹھا پکڑ لیا اور کہا ابو جی! یہ آپ کیوں لائے ہیں؟ میں مر گیا تھا کیا؟ میرے ہوتے ہوئے آپ کام بالکل نہیں کریں گے۔ یہ کام اب میرا فرض ہے آپ کی ذمے داری نہیں‘‘۔ باپ پڑھے لکھے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر گھر کی چھت پر لے گیا اور بلند آواز سے پکار کر کہا۔ ’’لوگو! آؤ آج میرے ساتھ ایک سودا کر لو یہ میرا پڑھا لکھا بیٹا لے جاؤ اور اپنا کوئی ان پڑھ بیٹا مجھے دے جاؤ۔ آج مجھے پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان پڑھ بیٹے چاہئیں‘‘۔
پڑھے لکھے بیٹے نے تو باپ کو مشکل سے نکلنے کے صرف طریقے بتائے لیکن ان پڑھ نے
باپ کی تکلیف، مشکل، درد کو سمجھا اور سہارا بننے کے لیے خود اس کی طرف لپکا۔ اس بوڑھے شخص کا خیال تھا کہ تعلیمی اداروں نے میرے بیٹے کو دنیا کی معلومات تو سکھائی ہے لیکن انسانی اقدار، دوسروں کا درد سمجھنے کی صلاحیت، ایثار و قربانی، بڑوں کی تعظیم، روایات کی پاسبانی اور والدین کا احساس و قدر نہیں سکھائی۔ یہ تو کئی سال پہلے کی بات ہے لیکن اب تو تعلیمی اداروں کے معاملات شاید بہت ہی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ ہم تو رونے روتے تھے کہ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی اخلاقی تعمیر پر زور نہیں دیا جاتا، انہیں بڑوں کا ادب و احترام عملی طور پر سکھایا نہیں جاتا۔ ان کے اندر مذہبی روایات پیوست نہیں کی جاتیں لیکن اب جو چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں اور وہ بھی ان تعلیمی اداروں میں جو مخلوط ہیں، جہاں نوجوانوں کے لیے گندگی کے گٹر میں گرنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ جس طرح کامسیٹس یونیورسٹی کے پرچے میں ایک انتہائی بیہودہ سوال پوچھا گیا جس کا ہمارے معاشرے اور مذہب میں تصور بھی ناممکن ہے لیکن امتحانی پرچے میں طلبہ و طالبات کو اس گندگی کی پوری کہانی سنا کر پھر اس پر بحث کے لیے کہا گیا۔ ہماری روایات میں تو استاد کو باپ کی مانند کہا گیا ہے، یہ کس قسم کا خبیث استاد ہے جو بیٹیوں یا بیٹوں جیسے طالب علموں کو غلاظت و بے ہودگی کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ پرچے میں ایسے ہی سوال نہیں لکھ دیا گیا۔ نجانے مخلوط کلاس میں یہ لیکچرار نوجوانوں سے کیا بحث و مباحثہ کرتا ہو گا۔ اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی کے پرچے میں بھی اسی قسم کا سوال کیا گیا تھا کہ طلبہ کو اپنی اپنی بہن کے فگرز کے بارے میں نوٹ لکھنے کا کہا گیا۔ پچھلے سال کینئرڈ کالج میں بھی ایک ایسے ہی موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب کسی نے اعتراض کیا تو کہا گیا کہ ہم معاشرے میں برائی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
جب پرچوں میں اخلاق سے گرے ایسے سوالات ہو سکتے ہیں، کالجوں میں ایسے موضوعات پر مباحثے منعقد ہوسکتے ہیں، جب یونیورسٹی کی سطح پر جو لٹریچر انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے وہ مکمل طور پر مغربی سوچ کا عکاس ہوسکتا ہے تو پھر دیکھیں اور سوچیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کو کس رخ پر لے جا رہے ہیں اور ہمارے تعلیمی ادارے کس قسم کی سازشوں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ اخلاقیات اور معاشرت سکھانے کے ذمے دار تو یہ تعلیمی ادارے ہیں۔ ڈگری صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ سر سے پاؤں تک کی اخلاقی تعمیر کی ایک سند ہوتی ہے۔ ہماری معاشرت میں تو ایک بیٹی اپنے پورے گاؤں، محلے کی بیٹی ہوتی ہے۔ ہمارے سگے بھائی تو کیا بلکہ خالہ زاد بھائی، ماموں زاد بھائی، چچا زاد بھائی ہماری عصمتوں کے محافظ ہوتے ہیں۔ ہمارے بیٹے، شوہر، بھائی، چچا، ماموں اور دوسرے محرم رشتے معاشرتی زندگی میں ہمارے سروں پر پاسبانی کی ذمے داری ادا کرتے ہیں۔ اب جب کہ اپنے آپ کو روشن خیال کہلانے اور اور سمجھنے والے لیکن غلیظ ذہنیت کے مالک کچھ مقامی ’’جینٹل مین‘‘ محرم رشتوں کو بھی جنسی آلودگی کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تبھی تو یونیورسٹی کی کسی اتھارٹی نے پرچہ چیک کرنے کی زحمت ہی نہ کی اور سوال پوچھنے والے نے اس بے ہودگی پر جواب کم از کم چار پیراگراف اور 300 الفاظ میں لکھنے کا کہا۔
یہ غلیظ عناصر ہماری معاشرتی پاکیزگی کی جڑوں میں بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں جس کی تباہی سے ہمیں اپنی نسلوں کو بچانا ہے اور بھر پور احتجاج کے ساتھ ایچ ای سی کے ذمے داران اور وزیر تعلیم کی توجہ اس جانب مبذول کروانی ہے۔ بلکہ اس بے ہودہ جرأت کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دلوانی ہے۔ ان کی سزا صرف یہ نہیں کہ یونیورسٹیاں انہیں برطرف کر کے ہاتھ جھاڑ دیں کہ ہم نے اپنی ذمے داری پوری کر دی بلکہ انہیں ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ اس اسلامی جمہوریہ میں آئندہ ایسی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی کوئی ہمت نہ کرسکے تاکہ ہمارے نوجوانوں اور ہماری آئندہ نسلوں کو پاکیزہ ماحول میسر ہو۔ ہمارے تعلیمی ادارے اخلاقی و انسانی اقدار سکھانے کا ذریعہ بن جائیں نہ کہ مذکورہ بوڑھے باپ کی طرح ہم بھی اس کرب کا شکار ہو جائیں کہ بیٹا تعلیم حاصل کر کے والدین کا مقام ومرتبہ بھول بیٹھا ہے یا غلط روش کے بہاؤ میں بہہ گیا ہے اور ہم لوگوں سے اپنے پڑھے لکھے بیٹوں کے تبادلے میں ان کے ان پڑھ بیٹے لینے کا مطالبہ کر دیں۔