۱مہنگائی نے تو غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے جبکہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ یہ تو عالمی مسئلہ ہے مگر ہمارے یہاں گلی کوچوں اور محلے کے دکانداروں نے لوٹ مار مچا رکھی ہے، ہر دکاندار نے اپنے اپنے نرخ علاحدہ سے مقرر کررکھے ہیں۔ ہم یہاں صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں ہم جس علاقے میں رہتے ہیں تھوڑے فاصلے پر ایک مارکیٹ ہے جو ’’ہول سیل‘‘ مارکیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے، گرچہ یہاں بھی ہر دکاندار کے اپنے نرخ ہیں پھر بھی عام طور پر اشیائے صرف کچھ کم نرخ پر مل جاتی ہیں۔ آج کل آٹے کا بحران ہے ہم نے علاقے کے دکاندار سے پانچ کلو آٹا لینا چاہا تو جواب ملا آٹے کی قلت ہے ابھی آپ دو کلو لے جائیں۔ تیسرے دن ہم نے جب آٹا طلب کیا تو اس نے پانچ کلو پیکٹ کی قیمت 650 روپے بتائی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہول سیل مارکیٹ کا رُخ کیا جہاں یہی پیکٹ صرف 550 میں باآسانی مل گیا۔ یعنی ایک تھیلے پر 100 روپے اضافی منافع اور اصل منافع الگ ہے۔ دوسری مثال ڈیڑھ لیٹر پیک دودھ کے ڈبے کی ہے 8 ڈبوں کا کاٹن صرف 2430 روپے میں فروخت کررہے ہیں یعنی ایک ڈبے پر 26 روپے منافع۔ یہ سب کچھ یوں ہے کہ کوئی پوچھنے والا (چیک اینڈ بیلنس) نہیں ہے یہ تو عوام کی عوام سے لوٹ مار ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں حکمرانوں کی تو پاکستان میں آئی ایم ایف کے ایجنٹ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی طرف کہ جن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالیں گے بلکہ اشرافیہ کو یہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ چناں چہ اس کی ابتدا پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے کردی گئی ہے۔ کیوں کہ یہ درج ذیل اشیا حکومت سرکاری خزانے سے اشرافیہ کو فراہم کرتی ہے جو عوام کو خریدنا پڑتا ہے۔ یہ حکمرانوں کا کون سا فلسفہ ہے کہ عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ اس سے حیران کن بات ہے کہ مہنگائی مارچ کے سربراہ مسٹر بلاول زرداری نے خاموشی اختیار کررکھی ہے، بلکہ ان کو غیر ملکی دوروں سے فرصت ہی نہیں تین چار ملکوں کے دوروں کے نام پر سرکاری خرچ سے سیر سپاٹے کرکے آتے ہیں اور پھر جلد ہی دوبارہ تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں، جب کہ ان چوروں اور لٹیروں کے سربراہ فضل الرحمن نے لب سی رکھے ہیں اور جب بھی لب کشائی کرتے ہیں تو تان عمران خان پر ہی ٹوٹتی ہے۔ میڈیا اپنے ٹیبل ٹاک پر تو بحث و مباحثے دکھاتا ہے مگر براہِ راست ان رہنمائوں سے ایسے سوالات کرنے سے گریز کرتا ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔
پی ٹی وی کے زمانے میں ٹی وی پر مختلف پروگرام دکھائے جاتے تھے اور ہر پندرہ منٹ کے بعد صرف پانچ منٹ کا وقفہ برائے اشتہارات ہوا کرتا تھا مگر آج کل تمام ہی چینل شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک صرف ڈراموں کے لیے مخصوص ہیں جہاں ڈراموں کی ابتدا میں ہر پندرہ منٹ بعد دس منٹ کا وقفہ برائے اشتہارات ہوتا ہے اور جیسے ہی ڈراما ہٹ ہوتا ہے تو ہر دس منٹ کے بعد پندرہ منٹ اشتہارات کی نظر ہوتے ہیں۔ جہاں ہر چیز چاہے پانچ روپے کی ہو یا پچاس روپے یا ہزار کی اس پندرہ منٹ کے وقفے میں ایک ہی آئٹم کو چار پانچ بار دکھایا جاتا ہے۔ جب کہ عوام کو علم ہو کہ چینلوں پر اشتہارات کے ریٹ فی سیکنڈ کے حساب سے مقرر کیے جاتے ہیں تو صرف ایک وقفے میں کتنی رقم صرف ہوئی،
جب کہ ان 6 گھنٹوں میں ایسے لاتعداد وقفے ہوتے ہیں اب اس کو چینلوں کی تعداد سے ضرب دیں تو لاکھوں روپے صرف پبلسٹی پر صرف کیے جارہے ہیں تو لاگت میں اضافہ ہوگا جو عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور فائدہ اٹھارہا ہے میڈیا۔ ایسے ہی تو کل ایک نیوز چینل سے ابتدا کرنے والے چار پانچ چینلوں کے مالک نہیں بن بیٹھے ہیں اگر اشتہار پر خرچ کیے جانے والے لاکھوں روپے بچالیے جائیں تو اشیا سستی ہوسکتی ہیں اور فائدہ عوام کے ساتھ ساتھ کمپنی کا بھی ہوگا کہ عوام زائد تعداد میں خریداری کرسکیں گے۔ ہم پبلسٹی کے مخالف نہیں بلکہ ذرا اعتدال کے ساتھ اتنی پبلسٹی کرے کہ اشیا کی لاگت دوگنی نہ ہو پھر یہ اشتہارات بھی فحاشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر شے ناچ ناچ کر دکھائی جارہی ہے، صنف نازک کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے، چاہے وہ شیونگ بلیڈ کا اشتہار ہی کیوں نہ ہو۔ بے حیائی عام ہے نوجوان لڑکے لڑکیاں باہم شیرو شکر ہو کر چست لباس میں جلوے بکھیر رہے ہیں۔ جب میڈیا پر بے حیائی کی بات آئی تو پہلے میڈیا پر دکھائی جانے والی بے غیرتی کی بات ہو جائے۔
ہمیں کیوں کہ لکھنے لکھانے کا شوق ہے چناں چہ ہمارے دوست احباب کو جہاں کوئی قابل گرفت بات نظر آتی ہے ہمیں پوسٹ کر دیتے ہیں اور پھر اسرار کرتے ہیں کہ اس پر کچھ لکھیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں ایک پوسٹ میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں بے غیرتی کے حوالے سے موصول ہوئی جو کچھ یوں ہے۔ ایک چینل لگایا تو سالی بہنوئی پر فدا ہوئے جارہی ہے تو دوسرے چینل پر بہنوئی اپنی سالی سے عشق فرما رہے ہیں۔ تیسرے چینل پر باس اپنے ملازم کی بیوی پر فریفتہ ہورہے ہیں۔ چوتھے چینل پر سسر اپنی بہو سے پینگیں بڑھا رہے ہیں جب کہ ایک اور چینل پر ایک لڑکی بیک وقت پانچ مردوں سے عشق کرتی نظر آتی ہے اور پھر ان ڈراموں میں مغربی لباس چست پینٹ اور ٹائٹ شرٹ جس سے سارا جسم نمایاں نظر آتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کو ’’لو اسپاٹ‘‘ کے طور پر دکھایا جارہا ہے جہاں لڑکے لڑکیاں کسی تعلیمی موضوع کے بجائے پیار محبت کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ دو بڑے چینلوں پر برس ہا برس سے گیم شو کے نام پر بے ہودگی کا جشن جاری ہے جہاں میزبان تو طریقے کے لباس میں ہوتا ہے مگر اس کی معاونین لڑکیاں مغربی لباس زیب تن کرکے پروگرام کی زینت بنی ہوئی ہیں پھر میزبان شوہر اور بیوی کو آمنے سامنے بٹھا کر اظہار محبت کرنے پر اسرار کرتا ہے اور کوئی نوجوان لڑکیوں سے بیہودہ سوال کرتا ہے۔ ایک میزبان ہال میں یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں اب جو انعام ہے وہ سولہ سالہ لڑکیوں کے لیے ہے پھر ہال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولتے ہیں کہاں ہیں سولہ سالہ لڑکیاں؟ اب بیک گرائونڈ سے آواز آتی ہے کیا یہ ہمارا کلچر ہے یا ان چینلوں کے مالکان ڈراما پروڈیوسرز رائٹرز اور ڈائریکٹرز کے اپنے گھروں کا کلچر ہے۔ ایسے کام ہمیں اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور یہ قوم خود ہماری نئی نسل کو حرام کاری کا درس دے رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں رہنے والا سفید پوش اور عزت دار شخص اپنی ماں، بہنیں، بیٹی یا بہو کے ساتھ تو ایسے ڈرامے دیکھ سکتا ہے۔ کیا قائداعظم نے ایسے بے ہنگم معاشرے کے لیے جدوجہد کی تھی؟ کیا اقبال کے خواب کی یہی تعبیر ہے۔ میڈیا پر عریانی فحاشی عروج پر ہے، ان چینلوں پر دکھائے جانے والی غیر اخلاقی اور بیہودہ چیزوں نے ہماری نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے مادرپدر آزاد چینلوں کے خلاف عدلیہ کو ایکشن لینے کی ضرورت ہے مگر عدلیہ کے پاس اتنا وقت کہاں؟ لیکن اگر اس طوفان کو نہ روکا گیا تو کل یہی گھر گھر کی کہانی ہوگی اور ہم صرف کف افسوس مل رہے ہوں گے۔