عمران اور شہباز حکومتوں میں ایک ہی جیسے بحران

976

پی ٹی آئی، پی پی پی، ن لیگ اور پی ڈی ایم حکومتوں میں عوام کو ایک ہی جیسے بحرانوں کا سامنا رہا دونوں حکومتوں میں مافیائوں کی عمل داری اور حکومتی بے بسی واضح طور پر نظر آئی۔
آٹا/گندم بحران: 2020ء میں آٹا اور گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو گرام ہو گئی۔ حکومت ِ پنجاب نے گندم کی 78 ارب روپے کی سبسڈی سمیت دیگر ذرائع سے حکومتی گندم مافیا کو فائدہ پہنچا یا جس سے مجموعی طور پر قومی خزانے کو 220 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی نئی حکومت میں ایک مرتبہ پھرملک کو گندم اور آٹے کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ذخیرہ اندوزی کے سبب فی کلوگرام آٹا 160 روپے کا ہوگیا۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے نسبتاً کم قیمت 65 روپے فی کلو گرام) پر فراہم کیے جانے والے آٹے کے حصول کے لیے عوام کو گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑا رہنا پڑا۔ 7 جنوری 2023ء کو ایک غریب مزدور آٹے کے حصول کی تگ و دو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق اس بحران میں پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزراء مبینہ طور پر ملوث پائے گئے مگر گندم مافیا کا احتساب نہ ہوا۔
پٹرول بحران: 2020ء میں عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے سبب اوگرانے پٹرول کی قیمتوں میں فی لیٹر کمی 7 روپے کی مگر حکومت کی نااہلی کے باعث پٹرول مافیا نے 3ہفتے ملک بھرمیں پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ بالآخر عمران حکومت نے پٹرول مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں میں 25.58 روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا جس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں پٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی۔ 3 ہفتوں میں پوری قوم اور قومی خزانے کو مجموعی طور پر 25 ارب روپے کا نقصان پہنچا مگر پٹرول مافیا کا احتساب نہیں ہوا۔ شہباز حکومت کے 10 ماہ میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا جوتا حال جاری ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبہ پر پہلے فی لیٹر پٹرول پر 50 روپے پٹرولیم لیوی عائد کی گئی۔ جولائی 2022ء میں فی لیٹر پٹرول 248.74 روپے اور فی لیٹر ڈیزل 276.54 روپے کردیا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں کی گئی۔ آج فی لیٹر پٹرول 272روپے اور فی لیٹرڈیزل 280 روپے ہے۔
ادویات کا بحران: پی ٹی آئی حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں 12 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ سرکاری اسپتالوں میں موذی امراض کے مفت علاج کا خاتمہ کر دیا گیا۔ جبکہ پی ڈی ایم پی پی پی حکومت نے بھی ادویات کی قیمتوں میں ہوش رْبا اضافہ کیا۔ پیپلزپارٹی کے سندھ حکومت کے زیر انتظام اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم فراہمی کی وجہ سے سیکڑوں اموات واقع ہوئیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کئی ماہ تک پینا ڈول اور پیرا سٹامول کا بحران پیدا ہوا۔ حکومت نے کیمیائی مواد کی درآمد میں مشکلات پیدا کر کے ادویات کا بحران پیدا کیا جس کے بعد جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا۔ دونوں حکومتوں کے وزرائے صحت پر سنگینی بدعنوانی کے الزامات لگے مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔
بجلی و گیس کا بحران: عمران خان نے ماضی میں بجلی کے بل جلا کر سول نافرمانی کی تحریک چلائی اور کہا کہ جب بھی مہنگائی ہوتی ہے تو سمجھو وزیر اعظم چور ہے مگر اْن کے دورِ حکومت میں عوام کو تاریخ کی مہنگی ترین بجلی اور گیس فراہمی کی گئی۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20گھنٹوں تک بڑھ گیا۔ اوور بلنگ کرکے عوام کو لوٹا گیا جبکہ حکومت بجلی بنانے کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح پی ڈی ایم/ پی پی پی حکومت میں بھی بجلی اور گیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ سے گھریلو صارفین کو کھانا بنانے کے لیے بھی گیس نایاب رہی۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز اور یونیفارم ٹیرف کے ذریعے بجلی کے بِلوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا آج ایک کلو گرام ایل پی جی اور سی این جی کی قیمت 330 روپے ہے۔ مہنگی ایل این جی خریدنے پر کسی حکومتی اہلکار یا وزیر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔
قرضوں کا بحران: عمران خان نے کشکول توڑنے اور قرضہ لینے پر خود کشی کو ترجیح دینے کا دعویٰ کیا لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ساڑھے 3 سالہ دورِ اقتدار میں 33 ارب ڈالر سے زیادہ کا بیرونی قرضہ حاصل کیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کیا۔ عالمی بینک کے نمائندے کو پہلے مشیر خزانہ اور پھر وزیر ِ خزانہ بنایا۔ آئی ایم ایف کے نمائندے کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر بنایا۔ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مالیاتی خودمختاری دے کر اسے حکومتی کنٹرول سے نکال کر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کنٹرول میں دے دیا۔ اپریل 2022ء کے بعد پی ڈی ایم /پی پی پی حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے قرضے کو 8 ارب ڈالر تک توسیع دینے کے لیے ایسا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں بد ترین مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان آگیا۔ سالانہ بجٹ 23-2022ء میں کم تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ٹیکس چھوٹ واپس لے کر ثابت کیا گیا کہ قومی معیشت حکومت ِ پاکستان کے کنٹرول میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر سال 2022-23ء کا ضمنی بجٹ عجلت میں پیش کر دیا اور 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس غریب عوام پر عائد کردیے جس سے عام آدمی کا جینا دْو بھر ہو گیا۔
کرپشن کا بحران: انٹر نیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (ICIJ) کی تحقیقات کے مطابق پی ٹی آئی کے وفاقی و صوبائی وزراء شوکت ترین، مونس الٰہی، فیصل واوڈا اور علیم خان کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا مگر وزیر اعظم نے اْنہیں منی ٹریل (یعنی پیسہ کہاں سے آیا؟) فراہم کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔ ایک ایسے نیب زدہ بینکار کو وفاقی وزیر خزانہ مقرر کردیا گیا جس پر پینڈورا لیکس کے مطابق ایک غیر قانونی آف شور کمپنی بنانے کا الزام تھا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمے قائم ہوئے تو حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے باہمی تعاون سے نیب قوانین میں تبدیلیاں کردی گئی۔ اسی طرح جب پی ڈی ایم اور پی پی پی کی اتحادی حکومت موجود میں آئی تو قومی احتساب کے اداروں نیب اور ایف آئی اے کو مطلوب محمد اسحاق ڈار پر کرپشن کے تمام کیسز ختم کر کے وفاقی وزیر ِ خزانہ بنا دیا گیا۔ نیب قوانین میں ترامیم کر کے آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، شہباز شریف، حمزہ شریف اور دیگر کو نیب کے شکنجے سے نکال لیا گیا۔ اور کئی مقدمات میں باعزت بری کردیا گیا۔
حکمرانی کا بحران: عمران خان کی وفاقی کابینہ 52 وزراء پر مشتمل تھی جبکہ شہباز حکومت کی وفاقی کابینہ 85 ارکان پر مشتمل ہے۔ عمران خان روزانہ ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس کا سفر کرتے اور پروٹوکول انجوائے کرتے رہے جبکہ بلاول زرداری زیادہ تر بیرون ملک دورے پر رہے۔ دونوں حکومتوں میں امن و امان کی صورتحال ابتر رہی اور عوام غیر محفوظ ہو گئے۔ کراچی اور پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں میں دہشت گرد کارروائیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ علاوہ ازیں دونوں حکومتیں اپنے بارے میں ’’پراکسی حکومت‘‘ کا تاثر زائل نہ کرسکیں۔
سوال پھر یہ ہے کہ ہر حکومت میں ایک ہی جیسے بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیوں ایک ہی قسم کے مافیاز اِن بحرانوں سے اربوں کھربوں روپے کا فائدہ اْٹھا کر عوام اور قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مافیاز کے سامنے عمران خان اور شہباز شریف دونوں بے بس نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور اْن کی حلیف ایم کیو ایم، ق لیگ، جے یو آئی ف اور اسٹیبلشمنٹ کسی کے پاس آج ان بحرانوں کا حل نہیں ہے شاید اس کی ایک وجہ مافیائوں کی سیاسی جماعتوں پر عمل داری اور مکمل کنٹرول ہے۔ اب عوام کو چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اْس جماعت کا انتخاب کریں جو مافیائوں سے آزاد ہو اور جس کی اہلیت، قابلیت، خدمت اور دیانت کے سامنے سب زیر ہو جائیں۔