نیب میں مداخلت کا عیب

490

قوم ہر روز نئی بریکنگ نیوز کی عادی ہوتی جارہی ہے۔ جس روز بریکنگ نیوز نہ ہو اس دن لوگوں کو پورا دن پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ چناں چہ قوم کے مزاج کے مطابق گزشتہ منگل کے روز ایک بریکنگ نیوز آگئی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین آفتاب سلطان نے استعفا دے دیا ہے۔ اس استعفے کی تصدیق کے ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ میرے کام میں مداخلت کی جاتی تھی اور مجھے یہ منظور نہیں تھا۔ میں آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتا تھا۔ جاتے جاتے نیب افسران کو انہوں نے وہ بات بتائی جو شاید کسی سرکاری افسر کو معلوم نہیں تھی۔ انہوں نے نصیحت کی کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق کام کریں۔ چیئرمین نیب کے طور پر وہ سات ماہ اس عہدے پر رہے۔ جاتے جاتے وہ وہی باتیں کہہ گئے ہیں جس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی یاد تازہ کردی۔ وہ اشارتاً ہی کہہ رہے تھے کہ نیب کو دیگر اداروں کی مداخلت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ اور ظاہر ہے یہ مداخلت کرنے والا ادارہ کے ڈی اے، ایل ڈی اے، واسا یا واٹر بورڈ نہیں ہوگا بلکہ وہی ادارہ ہوگا جس کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا۔ آفتاب سلطان جو کچھ کہہ گئے اس کے باوجود وہ یہ بھی سمجھ اور کہہ رہے ہیں کہ ان کے دور کا اختتام اچھے موڈ پر ہوا ہے۔ وہ آئین کو ماننے اور اداروں کی نہ ماننے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے سات ماہ میں کسی ادارے کی کوئی بات مانی یا نہیں۔ اور مانی تو کس ادارے کی بات کس کے خلاف مانی گئی۔ یہ بہت اہم بات ہے چیئرمین نیب یوں ہی استعفا دے کر کیسے نکل سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے سات ماہ تک اداروں کی بات نہیں مانی تو ان کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے اور اگر وہ اداروں کے سامنے ڈھیر ہوگئے تھے تو کم از کم اتنا بتادیں کہ کس کس کے خلاف غلط مقدمات بنائے گئے اور کس کس کے بھائی کو پکڑا اور کس کے بھائی کو چھوڑا۔ اگر وہ یہ واضح نہ کریں تو ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ نیب تاجروں کا کاروبار، سیاستدانوں کی ساکھ، سرکاری افسروں کا کیریئر تباہ کردیتا ہے۔ لوگوں کے گھر والوں پر نہایت منفی نفسیاتی اثرات پڑتے ہیں اور چیئرمین بس یہ کہہ کر نکل جائے کہ مجھ پر دبائو تھا تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے اور اس طرح ہونا چاہیے جیسے وہ دوسروں کا کرتا تھا۔
یوں تو نیب، ایف آئی اے عدالتیں، پولیس، ایجنسیاں سب ہی کسی نہ کسی ادارے کی ہدایت اور اشارے پر کام کرتی ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی چیئرمین یا ادارے کے سربراہ نے مداخلت کا الزام لگا کر استعفا دیا ہے۔ اب شنید ہے کہ ڈی جی نیب سمیت کئی افسروں کو ہٹانے کی مہم چل پڑی ہے۔ گویا محکمہ متزلزل ہوجائے گا۔ آفتاب سلطان صاحب کے سامنے جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کی مثال ہے جن کے بارے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ انہوں نے ایک محفل میں سیکڑوں ججوں کی موجودگی میں پوچھا کہ کیا آپ کی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے۔ تو ایک بھی ہاتھ اثبات میں نہیں اُٹھا تو کیا نیب میں گزشتہ سات ماہ کے دوران سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوتا رہا۔ یقینا ایسا نہیں ہوا لیکن آفتاب سلطان کے مبہم بیان کی وجہ سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ جو اصل ملزم اور مجرم ہیں وہ یہ کہہ کر سیاسی فائدہ حاصل کریں گے کہ چیئرمین نیب نے خود اعتراف کیا ہے کہ ادارے مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک نیا پنڈورا بکس کھول دینے کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ اب کسی ملزم مجرم معروف چور اور ڈاکو کے خلاف بھی نیب کا مقدمہ بنا تو وہ یہی کہے گا کہ چیئرمین نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ دبائو ڈالا جاتا ہے۔
آفتاب سلطان صاحب نے صرف سات ماہ اس منصب پر رہ گزشتہ کئی برسوں کے نیب کے اقدامات کو متنازع بنادیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے نیب کو عیب لگادیا۔ انہوں نے نیب کے کاموں میں مداخلت کا انکشاف تو ایسے کیا ہے جیسے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ حالاں کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا، بس پہلی مرتبہ کسی نے استعفا دیتے ہوئے الزام لگایا ہے ورنہ ریٹائرمنٹ یا نکالے جانے کے بہت دن بعد یہ الزام لگایا جاتا تھا۔ ان کا نیب میں مداخلت کا عیب لگانا ایسا ہے جیسے دن چڑھے کوئی اوپر اُنگلی اُٹھا کر کہے کہ وہ دیکھو اسے سورج کہتے ہیں۔ آفتاب صاحب سمیت کوئی بھی جج، نیب کا ڈی جی، پولیس، ایف آئی اے سربراہ کوئی حکمران یہ دعویٰ تو کردے کہ اس کا ادارہ مداخلت سے پاک ہے۔ آفتاب سلطان صاحب کی سلطنت کو غروب ہوئے ہفتہ گزر چکا اب تک کسی معزز ادارے کا نام انہوں نے نہیں لیا کہ اس نے مداخلت کی تھی۔ یہ جو عدالت عظمیٰ ہے اس نے ایک غیر ضروری معاملے پر ازخود نوٹس لیا ہے اسے اس ضروری معاملے پر بھی نوٹس لینا چاہیے۔ سابق چیئرمین صاحب کو باضابطہ طلب کیا جانا چاہیے ان سے ایک ایک مداخلت کار کا نام پوچھنا چاہیے کس کس کیس میں کیا کیا مقدمات بنوائے گئے یا بنوانا چاہتے تھے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو کل عدالت عظمیٰ کے بارے میں بھی کوئی کچھ کہہ سکتا ہے۔ ابھی تو سیاسی رہنما بول رہے ہیں پھر عام آدمی بھی بولے گا۔ آفتاب صاحب اپنے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظام احتساب کو بھی غروب کرنے کے درپے ہیں۔