اب تو بیالیس سال کا عرصہ گزر گیا کچھ باتیں تو بہت سے استادوں کو بھی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ ابلاغ عامہ کا میدان بھی اب ابلاغ عامہ کے طلبہ اور اساتذہ کے بجائے ہاتھوں میں موجود کھلونے، موبائل کے کنٹرول میں ہے۔ کسی کو کیا معلوم طلبہ یونین کیا ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے نظام میں طلبہ یونین کی اہمیت کیا ہے۔ طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے ان کو مستقبل کا معمار بنانے اور انہیں معاشرے کا کار آمد فرد بنانے میں نہایت اہمیت رکھتی تھیں لیکن آج کل تو طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم کا نام ہی گڈ مڈ ہوجاتا ہے۔ جوں ہی طلبہ یونینوں کی بحالی کی بات کی جائے شور اُٹھ جاتا ہے کہ ارے تعلیمی اداروں میں سیاست کی بات نہ کریں۔ لیکن یہ کہانی ہے کیا۔ ہر سال فروری میں طلبہ یونینوں پر پابندی کی یاد منائی جاتی ہے لیکن ہماری یاد ان یونینوں سے زیادہ ان یونینوں کو بنانے اور چلانے والے دماغوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک دماغ حافظ محمد اسلم شہید کا بھی تھا جو دماغ سے زیادہ دل سے قریب ہیں۔ جامعہ کراچی میں 26 فروری 1981ء کا سانحہ ہمارے لیے ایسا تازہ ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن حافظ اسلم ہمارے پڑوسی بھی تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہم ان کے پڑوسی تھے۔ اس کی کچھ نہ کچھ برکتیں ضرور ملیں۔ جب ہم 26 فروری کو حافظ اسلم کو یاد کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جامعہ کراچی میں اس وقت صرف حافظ اسلم تھے جو جامعہ میں جمعیت کا اور یونین کا نظام چلا رہے تھے۔ بلکہ بتانا یہ ہے کہ وہ یکے ازجواہر تھے۔ ایک ایک ہیرا اپنے اندر کئی کئی کمالات رکھتا تھا۔ ہم تو اسے ہیرا سمجھتے ہیں جو کسی منصب پر نظر آیا۔ کوئی بڑی کمپنی بنالی پیسہ بنالیا، یا کسی پارٹی کا لیڈر بن گیا۔
ہمارا زیادہ زور طلبہ یونین پر ہی ہے لیکن تمام حوالے حافظ اسلم سے جڑے ہوئے ہیں۔ افراد کار کا انتخاب، مسائل کے حل کے لیے روز نئی ترکیبیں، 1980ء کے عشرے کے ابتدائی دنوں میں بین الاقوامی پروپیگنڈوں کا توڑ، مقامی طور پر جامعہ کی سیاست اور فوجی جرنیل کے پالے ہوئے پٹھوں کو گھر کی راہ دکھانا غرض ہر معاملے میں حافظ اسلم ایک حوالہ تھے۔ حتیٰ کہ بائیں بازو کے سیلاب اور طوفان کے آگے بند باندھنے میں ان کے خلاف نعروں کا اختراع بھی حافظ اسلم ہی حوالہ بننے ہوئے تھے۔ ممکن ہے اس دور کے لوگوں میں سے کوئی کسی نعرے کے بارے میں دعویٰ کردے کہ یہ تو میری اختراع تھا تو ان سے پیشگی معذرت لیکن چونکہ اس وقت حوالہ حافظ اسلم ہی ہیں تو کچھ نعرے یاد دہانی کے لیے تحریر کررہا ہوں۔ بائیں بازو والے سرخے کہلاتے تھے۔ ہر چیز میں سرخ رنگ سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کے نعرے لگتے تھے۔ حافظ اسلم نعرہ لگاتے تھے۔
یہ سرخ سویرا… نہیں بھئی نہیں
یہ گھور اندھیرا… نہیں بھئی نہیں
غنڈوں کا ڈیرا… نہیں بھئی نہیں
اسی طرح محمود غزنوی کے لیے جو نعرہ دیا اس کا جواب دینے کی تو کسی میں سکت ہی نہیں تھی۔ انہوں نے نعرہ دیا۔
بت شکن، بت شکن، غزنوی، غزنوی
عصبیت کا بت شکن، غزنوی، غزنوی
اس ایک نعرے میں تاریخ سے واقفیت بھی تھی اور یاد دہانی بھی۔ یہ اور بات کہ ہمیں اسم بامسمیٰ محمود غزنوی بھی صدارتی امیدوار کے طور پر ملے تھے جو دو مرتبہ جیتے۔ طلبہ یونینوں کی انتخابی مہم میں حافظ اسلم کے ساتھ خلیل اللہ فاروقی اور سلیم مغل بھی ہوتے تھے۔ اساتذہ کرام جو نظریہ پاکستان سے وابستہ اور اسے جانتے تھے وہ کہتے تھے کہ اسلامی جمعیت طلبہ والوں نے فیض کے اشعار سے یعنی سرخوں کے ہتھیار سے سرخوں کو شکست دی تھی۔ اس دور میں شفیع نقی جامعی، حسین حقانی بھی اسی صف میں تھے۔ ان دونوں نے تو بڑا نام بھی پیدا کیا۔ لیکن جب جامعہ میں تھے تو طالب علم تھے اور اس وقت دین بیزاری، سوشلزم، کمیونزم، اشتراکیت وغیرہ کے آگے بند باندھنا بڑا کام تھا جو یہ طلبہ کرتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے 1960ء کے عشرے سے 70 کے عشرے تک نہ صرف بند باندھا بلکہ اشتراکیت سوشلزم اور دین بیزاری کو دیس نکالا بھی دیا۔ یہ جنگ یونینوں کے صدور کی نہیں تھی، یہ حقیقتاً پاکستان کے نظریے کی جنگ تھی۔ جس فوج نے یہ جنگ لڑی وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کو یہ مصنوعی فوجیں شکست نہیں دے سکتی تھیں۔ پاکستان میں دائین بازو کو نیچا دکھایا تو بائیں بازو نے نہیں بلکہ موقع پرستی نے نقصان پہنچایا جن کی سرپرستی فوجی آمروں نے کی۔ بائیں بازو کے تو جتنے رہنما اور طالب علم لیڈر تھے 1980 اور 90 کے عشرے میں امریکا کی گود میں بیٹھے تھے یہی موقع پرستی تھی۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ طلبہ یونینیں تعلیمی اداروں میں سیاست ہیں اس اعتراض کا جواب حافظ اسلم نے 1980ء ہی میں دیا تھا۔ جب بعض بائین بازو کے اساتذہ جو دراصل اس وقت مفاد پرستوں کے آلہ کار بن چکے تھے، طلبہ یونینوں کی مخالفت کررہے تھے تو حافظ اسلم نے انہیں جواب دیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں مداخلت تو سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کے خلاف ہر آواز سیاست ہے۔ اس نظریاتی محاذ پر جوابی وار کرنے والوں کو لوگ سیاست کہنے لگے۔ حالانکہ 1960ء کے عشرے سے 1980ء تک جو نظریاتی جنگ تعلیمی اداروں میں لڑی گئی اور پاکستان کے نظریے کا بھرپور دفاع کیا گیا اس جنگ کی سرخیل اسلامی جمعیت طلبہ ہی تھی۔ جس کا اپنا دستور جس کے ارکان و کارکنان صرف طالب علم ہوتے تھے۔ جس کے اپنے اندر ہر سال الیکشن ہوتا ہے اسی قافلے کے ایک کارکن نظریہ پاکستان کے محافظ حافظ اسلم شہید ہیں۔ حافظ اسلم کسی ذاتی رنجش کا نشانہ نہیں بنے۔ کسی بھتے اور ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل نہیں کیے گئے ان کا جرم صرف ایک تھا۔ نظریہ پاکستان کی حفاظت وہ قرآن کا بھی حافظ تھا اور نظریہ پاکستان کا بھی محافظ، جو لوگ حافظ اسلم کو جانتے ہیں انہیں چاہیے کہ نئی نسل کو بتائیں نظریہ پاکستان کیا ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے۔