نیب ترامیم کیس: نیب جو رقم وصول کرتا ہے وہ کہاں جاتی ہے؟ سپریم کورٹ

364

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو(نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب جو رقم وصول کرتا وہ کہاں جاتی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب نے کیسز سے متعلق جامع رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی، نیب کی رپورٹ میں 221 ریفرنس اور دوسری میں 364 ریفرنس واپس بھیجے جانے کا بتا رہا ہے۔

وکیل نے کہا کہ نیب کی دونوں رپورٹس میں 143 ریفرنسز کا تضاد ہے جبکہ نیب کے مطابق 41 شخصیات کی بریت ہوئی، لہذا عدالت نیب سے احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے جانے والے ریفرنسز کا ریکارڈ طلب کرے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب بتائے ان کیسز میں کتنے لوگ بری ہوئے، بری ہونے والوں میں سیاسی شخیصات کتنی ہیں۔اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ریفرنسز 221 بھیجے گئے ہیں یا 364۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا ان ریفرنسز کی رقم کتنی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ آپ خود کہتے رہے ہیں کہ نیب ماضی میں انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب چیئرمین اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں، وہ ایک بہترین ساکھ کے حامل پولیس افسر تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے پیسہ واپس کردیا لیکن اس کے باوجود اسے جیل میں رکھا گیا، لگتا ہے نیب قانون سے سب کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کے علاوہ اور کون سے دیگر قانون لاگو ہو سکتے ہیں، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ، ٹیکسیشن سمیت دیگر قانون موجود ہیں۔بعد ازاں عدالت نے درخواست پر مزید سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی۔