اسلام آباد:سریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ہزارہ کمیونٹی ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شہریت کا حق رکھتا ہے،نادرا کیسے کسی کی شہریت چیک کر سکتا ہے۔
شہریت کا فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا حق ہے نادرا کا نہیں،نادرا ایکٹ شہریت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں،ہزارہ کمیونٹی کے لوگ بھی پاکستانی ہیں،ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں سے تفریقی رویہ کیوں رکھا جارہا ہے،جس کے پاس بھی شناختی کارڈ ہے وہ پاکستانی ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو اضافی شرائط لگا کر کیوں حراساں کیا جا رہا ہے،کسی کی شہریت پر شک کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے،حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ افغانی کہہ پر منسوخ کردیا گیا،حافظ حمد اللہ کا بیٹا فوج میں تھا۔
عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ کمیونٹی کے خدشات کم ہوئے ہیں اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔
وکیل ہزارہ کمیونٹی نے عدالت کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ اور لا اینڈ آرڈر میں بہت بہتری ائی ہے،نادرا اور پاسپورٹ آفس کی جانب سے غیر ضروری شرائط عائد کرنے سے کمیونٹی پریشان ہے،پاسپورٹ بنانے کیلئے ایم این اے یا ایم پی اے سے دستخط کی شرط رکھی جاتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عام شہریوں کی طرح ہزارہ کمیونٹی پر شناختی اور پاسپورٹ کیلئے وہی شرائط ہیں،9 میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کرنے پر شناختی کارڈ جاری کردیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ شہریت قیمتی پیدائشی حق ہے،جہاں اختیارات سے تجاوز کیا جا رہاہے اسکا جائزہ لیں۔وکیل نے بتایا کہ ہزارہ کمیونٹی کے علی رضا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے ، جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر پوچھا کیا ریاست اپنے شہری کو بھی بازیاب نہیں کروا سکتی۔
سپریم کورٹ نے اس موقع پر علی رضا کی بازیابی بابت وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے معاملہ کی مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ہے۔