کسی بھی سر کو سردار بننے ہی نہ دیا جائے

678

قصہ پرانا سہی مگر حسب حال ضرور ہے۔ بات حسب حال ہو تو دہرائے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا مگر تھا بڑا ظالم اور اذیت پسند۔ ہر زور عوام کو اذیت پہنچانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتا اور جب عوام تڑپ کر دربار میں آتے تو ان کو اس اذیتناک حالت میں روتے، چیختے، چلاتے، سسکیاں بھرتے اور تڑپتا ہوا دیکھ کر اسے اور بھی مزا آتا۔ بادشاہ کے مظالم اور فریادیوں کے ساتھ اس کا رویہ دیکھ کر عوام میں اتنی مایوسی بڑھ گئی کہ وہ ظلم تو سہ لیتے لیکن دربار میں جانا بالکل ہی چھوڑ دیا۔ جب کئی ہفتے کوئی فریادی روتا پیٹتا دربار میں نہ آیا تو بادشاہ بہت ہی پریشان ہوگیا کہ کیا اس کے وزیروں مشیروں نے عوام پر ستم ڈھانا ترک کر دیا ہے۔ تمام مشیروں اور وزیروں کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا اور بڑے غضبناک انداز میں پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے عوام پر قہر و غضب ڈھانا چھوڑ دیا ہے۔ تمام وزیروں اور مشیروں نے نہایت لرزتی آواز کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں بادشاہ سلامت ایسا ہرگز نہیں ہے، ہم تو ہر روز کسی نہ کسی فتنے کو جگا کر آتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ پھر کوئی فریادی چیختا پیٹتا ہمارے پاس کیوں نہیں آتا، جس پر ایک وزیر باتدبیر نے جان کی امان مانگنے کے بعد عرض کیا کہ عوام سخت مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ظلم پر جب وہ آپ کے پاس ہانپتے کانپتے حاضر ہوتے ہیں تو آپ کی جانب سے ان کے زخموں پر مرہم رکھے جانے کے بجائے نمک پاشی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ جب کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے تو کیوں نہ چپ سادھ لی جائے۔ یہ سن کر بادشاہ کا غیظ و غضب بلندیوں کو چھونے لگا اور اس نے کہا کہ کچھ بھی کرو مجھے دربار میں چیختے پیٹتے عوام چاہئیں۔ ایک مشیر نے کہا کہ میں نے سوچا ہے کہ پورے شہر کو حکم دیا جائے کہ وہ صبح دم کوئی
بھی کام شروع کرنے سے پہلے دربار میں حاضر ہوں، یہاں ان کے سرپر دس دس جوتے لگائے جائیں گے۔ جوتے کھانے سے پہلے وہ کسی کام کا آغاز نہیں کر سکتے، چنانچہ پورا شہر محل کے قریب حاضر ہوتا، جوتے کھاتا پھر اپنے کام پر روانہ ہوتا۔ ہفتہ گزرگیا لیکن کہیں سے کوئی اُف تک بلند نہ ہوئی۔ بادشاہ پریشان ہوا تو جوتے مارنے کی تعداد کو دو گنا کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ کو خبر دی گئی کہ کچھ فریادی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ باد شاہ تو مارے خوشی کے پاگل ہوگیا۔ حکم دیا کہ جلدی بھیجو۔ سوچ رہا تھا کہ جب وہ تڑپ تڑپ کر اپنے دکھ کا ذکر کریں گے، روئیں گے، سسکاریاں بھریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔ فریادی سر جھکائے حاضر ہوئے تو بادشاہ نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا کہ کیوں فریادیو، آج کل تو خوب مزا آ رہا ہوگا۔ جوتے تو خوب زوردار پڑتے ہوںگے۔ کہو کیسے آنا ہوا۔ فریادیوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو، ہم ہر روز جوتے کھانے حاضر ہوجاتے ہیں، صبح سے شام ہو جاتی ہے۔ بادشاہ نے بات روک کر کہا کہ وہ تو اب ہر روز ہوگا بلکہ ہم سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ جوتوں کی تعداد مزید بڑھادی جائے۔ فریادیوں نے کہا کہ ہم اس لیے نہیں آئے ہیں کہ جوتے مارنے بند کر دیے جائیں یا ان کی تعداد میں کمی کر دی جائے۔ بادشاہ نے غضبناکی کے ساتھ کہا کہ پھر یہاں کیا فریاد لے کر آئے ہو۔ فریادیوں نے کہا کہ آپ بس اتنی مہربانی کریں کہ ہمیں جو جوتے مارتے ہیں، ان کی تعداد بڑھادی جائے۔ تاکہ ہم یہاں سے جلد فارغ ہو جائیں اور اپنے اپنے کاموں پر وقت پر پہنچ سکیں۔
گزشتہ چار پانچ برس قبل مہنگائی کی جو صورت حال تھی اب اس میں اور آج میں پانچ سے لیکر سات گنا تک اضافہ ہو چکا ہے، بے روزگاری تاریخی عروج پر ہے، ملک میں امن و امان بری طرح تباہ ہو چکا ہے، بدعنوانی اپنی تمام حدیں توڑ چکی ہے، لوٹ مار اتنی عام ہو چکی ہے کہ کوئی گلی کوئی بازار محفوظ نہیں اور یہ تمام سلسلے کہاں جاکر ختم ہوںگے، مہنگائی کا جن قابو میں آکر بوتل میں بند کر دیا جائے گا یا 22 کروڑ عوام کو ایک ہی بوتل میں بند کرکے رکھ دے گا۔ ان سب باتوں کے باوجود بھی ہر سو ’’ہو‘‘ کا عالم ہے۔ کہیں سے کوئی فریاد بلند ہوتی نظر نہیں آ رہی، کوئی جلسہ، کوئی جلوس یا کوئی ریلی نہ تو نکالی جا رہی ہے اور نہ ہی کہیں سے سسکیاں، کراہیں، آہیں یا فریادیں بلند ہوتی نظر آ رہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کسی شے پر پیسے دو پیسے اضافہ ہو جاتا تھا تو کراچی سے پشاور تک زلزلہ آجایا کرتا تھا۔ بات صرف اتنی
سی تھی کہ لاکھ اختلافات کے باوجود عوام ایک تھے۔ لوگ بے شک پٹھان، پنجابی، بلوچی، سندھی اور مہاجر تھے لیکن اس کے باوجود ایک کا درد سب کا مشترکہ درد ہوا کرتا تھا۔ کراچی کی آواز سے خیبر جاگ جایا کرتا تھا اور بلوچوں کی فریاد سندھیوں کے سینے دھڑکا دیا کرتی تھی۔ لوگ جوق در جوق گلیوں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں میں جمع ہو جایا کرتے تھے اور حکومت وقت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جایا کرتی تھی لیکن اب ہوا یہ ہے کہ سب کے دکھ اپنے اپنے ہیں۔ پٹھان کا دکھ پٹھان کا، سندھی، بلوچی، پنجابی اور مہاجر کا دکھ صرف اس کا اپنا ہے۔ قوم لسانی، علاقائی اور صوبہ جاتی نفرتوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور جو سفاک اربابِ اقتدار و اختیارات ہیں وہ گدھوں کی مانند اس ملک کے عوام کا گوشت ان کی ہڈیوں تک سے نوچ لینے میں مصروف ہیں۔ جب قوموں کو پھاڑ دیا جائے تو پھر چیونٹیاں تک مگرمچھ بن جایا کرتی ہیں۔ جب فریادیں سننے والے سسکیوں اور آہوں پر جشن مناتے ہوں تو پھر دوہی طریقے رہ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کر دیا جائے یا بغاوت برپا کردی جائے مگر یاد رہے کہ کہ کوئی بھی بغاوت بغیر لیڈر برپا نہیں ہوا کرتی اس لیے اعلیٰ نادیدہ ایوانوں میں فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی قائد، رہبر یا رہنما کو ابھر نے سے قبل ہی دوسری دنیا کی سیر کرادی جائے گی یا اس کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں گی حتیٰ کہ وہ ان کے قابو میں نہ آ جائے۔ گویا نہ بانس ہوگا اور نہ ہی بانسری بنائی جا سکے گی۔