ایک سوال ہے کہ اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد سچ زبان پر کیوں آتا ہے۔ کسی طاقتور شخص کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہی اس کے خلاف پنڈورا بکس کیوں کھلتا ہے۔ ججوں کی کرپشن ان کے جانے کے بعد، جرنیلوں کی کرپشن ان کے جانے کے بعد ہی کیوں سامنے آتی ہے۔ صرف سیاستدان ہیں جن کی کرپشن اور ان کی ہر بے ضابطگی ان کے اقتدار کے دوران ہی سامنے آجاتی ہے۔ البتہ کارروائی ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ جب سے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا ہے انہیں فوج کے بارے میں سچ بولنے کا ہیضہ ہوگیا ہے۔ اور ہیضے میں صرف وہ نہیں نکلتا جو صاف ستھرا ہو بلکہ وہ بھی نکلتا ہے جو بری طرح گل سڑ چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ جنرل باجوہ کے بارے میں سب کچھ کہہ رہے ہیں بلکہ بہت ہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ یہ باتیں اس وقت کرتے جب بقول ان کے جنرل باجوہ یہ سب کررہے تھے اور معقول طریقے سے کرتے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے بارے میں تو انہوں نے ان کے دور اقتدار میں کلمہ حق کہا تھا جنرل باجوہ کی مدت ختم ہوتے ہی انہیں سب باتیں پتا چلنے لگیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز نے بھی کہا کہ عمران وزیراعظم ہوتے ہوئے جنرل باجوہ کو الزام دیتے تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے لیکن ان کے والدصاحب بھی تو اپنے اقتدار کے خاتمے پر ہی کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا… مسلم لیگ نے بھی اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ہی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اگر ووٹ کی عزت کا خیال کرنا تھا تو اپنے گزشتہ ادوار میں بھی اسے عزت دینی چاہیے تھی۔ اداروں کے بارے میں میاں نواز شریف، خواجہ آصف، آصف علی زرداری وغیرہ بار بار باتیں کرچکے عمران خان تو اب کررہے ہیں۔ لیکن ان سب کے معیارات دوہرے ہیں۔ فوج ساتھ ہے تو اچھی ہے، عدلیہ کے فیصلے حق میں ہیں تو اچھی اور منصف ہے اور خلاف ہیں تو بدعنوان ہے، یہ تضاد آخر کیوں ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کبھی عدلیہ کے خلاف ہوجاتے ہیں، کبھی اس کی تعریف کرتے ہیں، اس کا سبب بھی وہی ہے کہ عدلیہ کے فیصلے ان کے حق میں ہوں تو سب ٹھیک اور ان کے خلاف ہوں تو ججز نواز شریف کے لگائے ہوئے تھے۔ جنرل باجوہ ساتھ دیں پیٹھ پر تھپکی دیں تو بہت اچھے وہ کسی اور سے ڈیل کرلیں تو بہت برے، اب ان میں دنیا کی ہر برائی تلاش کی جارہی ہے، ہر غلط کام جنرل باجوہ نے کیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عمران خان تبدیلی کے دعویدار ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار اور ملک سے دوہرے قوانین ختم کرنے کا دعویٰ تو کرتے رہے لیکن تبدیلی لائے نہ ریاست مدینہ بنا سکے اور نہ دو الگ الگ قانون ختم کرسکے۔ ان کے دور میں بھی بڑے لوگوں کے لیے الگ قانون اور عام آدمی کے لیے الگ قانون تھا۔ اب وہ اچانک عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدلیہ اور ججوں کے خلاف گھٹیا مہم چلا رہی ہے، انہوں نے چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ حکمران آئین کو مان رہے ہیں نہ عدالتی
فیصلے تسلیم کررہے ہیں۔ ان کا یہ بیان کتنے دن تک ججوں اور عدلیہ کی توقیر میں اضافہ کرتا ہے اس کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی، صرف کوئی ایک فیصلہ ان کے خلاف آجانے کی دیر ہے۔ عدلیہ کرپٹ، جج نواز شریف کے لگائے ہوئے اور باجوہ کے آدمی بن جائیں گے۔ ہمارے حکمران طبقے نے ملک کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس حکمران طبقے میں وہی سب لوگ ہیں جن کا ذکر دو روز قبل وزیردفاع خواجہ آصف نے کیا ہے۔ یعنی اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان وغیرہ یہ سب کے سب اس ملک کے چاچے مامے بنے ہوئے ہیں۔ آج مسلم لیگ کو فوج اس لیے اچھی لگ رہی ہے کہ وہ عمران خان کی پشت پر نظر نہیں آرہی ہے اور عدلیہ سے بھی اسے امیدیں ہیں۔ لیکن جس دن جنرل عاصم منیر نے عمران خان سے قربت کا بھی اظہار کردیا ان سب کی زبان وہی ہوگی جو آج عمران خان کی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کو چاہیے کہ ایسا کام کرے کہ وہ اقتدار میں نہ ہوں تو بھی وہ اس ملک کے قانون پر اعتماد کریں، عدلیہ پر اعتماد کریں اور فوج پر اعتماد کریں۔ لیکن جب ان میں سے کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ تمام اختیارات اسے مل جائیں۔ آئین قانون روایات اخلاقیات سب کچھ اس کی آنکھ کے اشارے سے چلے، اور وزیر دفاع جو کہہ رہے ہیں کہ ہم سب ذمے دار ہیں انہیں تو یاد ہوگا کہ ان کی پارٹی جب دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ میں آئی تو اس نے ہر چیز کو ربر اسٹمپ بنا ڈالا تھا، وہ جس رفتار سے چل رہے تھے اس میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ انہیں یہ دو تہائی اکثریت فوج ہی نے دلوائی تھی وہ اس فوج پر بھی کنٹرول چاہتے تھے۔ ہاں ایسا ہونا تو چاہیے منتخب وزیراعظم کا آئینی کنٹرول فوج پر ہونا چاہیے لیکن نواز شریف ذاتی کنٹرول چاہتے تھے۔ اور اس کوشش میں مارے گئے۔ اب عمران خان باجوہ باجوہ تو کررہے ہیں لیکن ملک میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ جب اقتدار میں تھے تو انہیں سب اچھا لگتا تھا اور دوسروں کو باجوہ برے لگتے تھے اب انہیں برے لگتے ہیں، لہٰذا اقتدار کے دوران اور اقتدار سے نکلنے کے بعد دونوں طرح حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ایک ہی موقف اختیار کرنا چاہیے اور یہ موقف اسی صورت میں ایک ہوگا جب وہ اپنے دور اقتدار میں آئین کو بالادست تسلیم کریں، قانون کی خود بھی پیروی کریں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہماری اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان اور اشرافیہ اسی چوہے بلی کے کھیل میں لگی ہوئی ہے جو بچوں کے کارٹون میں ہوتا ہے۔ وہ کارٹون ٹام اینڈ جیری اب بھی اتنا مسحور کن ہے کہ بڑی عمر کے لوگ بھی تھوڑی دیر کے لیے اس کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کا پتلی تماشا بھی اس ٹام اینڈ جیری شو کی طرح ہے۔ یہ ایک دوسرے کا تعاقب کررہے ہیں اور مار دھاڑ شور شرابا اس کارٹون کا حصہ ہے۔ ان کرداروں اور ہماری سیاسی کٹھ پتلیوں میں کوئی فرق نہیں۔ ٹام اینڈ جیری شو میں ایک دوسرے کو اتنا مارا پیٹا جاتا ہے کہ انتہا ہوجاتی ہے لیکن چند لمحوں میں وہ پھر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے کٹھ پتلی سیاستدان بھی اسی طرح ایک کے اقتدار میں جیل، سختیوں، مقدمات کا سامنا کرتے ہیں، روتے چلاتے ہیں، پھر دوسرے کو اسی کیفیت سے گزارتے ہیں اور خود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ خدا کا واسطہ تماشا بند کرو۔