دہشت گردوں کے سرے بلوچستان، اور شمالی وزیرستان کیوں؟

485

ہم بدترین معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ہماری عیاشی بھی عروج پر ہے، ہماری اشرافیہ عوام سے دور اپنے محفوظ خوشحالی کے جزیرے میں ہر طرح کے فوائد سمیٹنے میں لگی ہے، اور عوام ان سب سے بے نیاز ان سیاست دانوں کی کٹ پتلی بنی ہے، جو انہیں بھوکا ننگا رکھ کر نچا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں، عدلیہ، جرنیلوں، صنعت کاروں نے ایکا کرلیا ہے، اور وہ عوام کو ہر طرح سے مل کر لوٹ رہے ہیں، ان کے منافع دولت، لوٹ مار کی کوئی حد ہے نا حساب۔ ملک پر نا اہل سیاست دانوں اور ان کے سرپرست قابض ہیں اور عوام کو دن بدن مشکل ترین امتحان میں ڈال رہے ہیں، ترقی اور خوشحالی خواب بن کر رہ گئی ہے۔
عوام بھی بہت اچھے نہیں ہیں، وہ بھی جانتے بوجھتے ان نا اہل سیاسی لیڈروں کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ بھی چھوٹی موٹی چوری چکاری میں ملوث ہیں، وہ ان پارٹی سے اس لیے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے برے کرتوں میں ان کا ساتھ دیں گے۔ دوسری جانب ناکارہ بیوروکریسی ہے، جو اپنی مراعات تنخواہوں، پرٹوکول میں مگن ہیں، وہ اس ڈوبتے ہوئے ملک کو بچانے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں، اور نہ ہی انہیں اس ملک کو سدھارنا ہے، ان کے پاس بیرونی ملکوں کے پاسپورٹ، شہریت، اور ویزے ہیں، وہ جب چاہیں اس ملک کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، اور اپنے اس خیال پر قائم ہوں کہ جس طرح انگریز کی پالیسی برصغیر میں یہ رہی کہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘۔ اب اس ملک کے کرتا دھرتا بھی اس نظریہ اور خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جب ملک کی عوام پر کوئی نیا ٹیکس، بجٹ، مہنگائی، پٹرول کے نرخوں، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے، جس سے عوام کی چیخیں نکلنے لگیں، اور ان میں بغاوت، یا احتجاج کی لہر اٹھے تو ملک میں کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوجائے، جس سے عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹ جائے، گزشتہ دنوں جب پٹرول کی قیمت پر ایک ہی ہلے میں 35 روپے کا اضافہ ہوا تو ہمیں اگلے دن سو سے زائد لاشیں اٹھانی پڑیں، پورے ملک میں کہرام مچ گیا، اور ہم پٹرول بم کی تباہ کاریوں کو بھول گئے، اب منی بجٹ آیا تو کراچی میں سی سی پی او کے دفتر پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا، اور اب ہم اس حملے میں سیکورٹی کے نا ہونے، غیر ملکی ہاتھ، اور دہشت گروں کے نیٹ ورک میں الجھے ہوئے ہیں، ہمیں نہ آئی ایم ایف کی شرائط یاد ہیں، نہ ہمیں یہ اندازہ ہے کہ اس اتحادی ٹولے کے وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے سب سے کڑی شرط سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فی صد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا۔ جس کا براہ راست عام آدمی کی زندگی پر اثر پڑے گا، روپے کی قوت خرید یوں بھی بہت کم ہے، اب سو روپے میں سے اٹھارہ روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جانے پر، سو روپے کی قیمت خرید کیا رہ جائے گی۔ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فی صد کر دیا گیا ہے۔سگریٹ اور مشروبات، سیمنٹ، ائر لائن ٹکٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی، انکم ٹیکس کی کیٹیگری میں شادی اور دیگر تقریبات پر دس فی صد کے حساب سے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، لیکن حکومت کی رٹ کہیں بھی نہیں ہے، دودھ کی قیمت میں ایک دم 20 روپے کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے، دودھ 210 روپے کلو ہے، آٹا مارکیٹ میں 130 روپے کلو ہے اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہوگئی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ امیر اور طاقتور حکمران اشرافیہ ہی ہمیں تباہی کے ان گڑھوں کی طرف لے جارہی ہے۔ وہ اس ملک کی تمام دولت اور گاڑیاں، زمینیں اور قرضے، مراعات اور پروٹوکول اور امداد اور سبسڈی کو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے لوٹ رہے ہیں، پاکستان کے عام شہری کو اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ سرکاری افسران، سول اور فوجی حکام، عدلیہ کے ججوں، سیاست دان، وزراء، ارکان پارلیمنٹ کو دیے جانے والے متعدد خود ساختہ فوائد، مراعات اور سہولتوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
سرکاری گاڑیاں اور پٹرول، کا استحقاق صرف اشرافیہ کو کیوں حاصل ہے؟ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے افسران نے ایسی ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ کیا ایسی سہولتیں برطانیہ، امریکا اور کینیڈا، بھارت جیسے ملک میں حاصل ہیں؟ ہم نے بحریہ، ڈی ایچ اے، دفاعی منصوبوں کے نام پر جو کاروبار شروع کر رکھا ہے، اسے اب بند ہونا چاہیے، کل ہی 33 برس بعد عدالت عظمیٰ نے آرڈیننس فیکٹری منصوبے کے متاثرین کو زمین کی مارکیٹ ریٹ پر ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے حکومت اور وزارت دفاع کی کم قیمت پر زمین کی خریداری کی اپیلیں مسترد کیں ہیں۔ حکومت نے عوامی منصوبوں کے متاثرین کو جائز حق دینے کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ عوامی منصوبوں کے متاثرین کے تنازعات کے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 1990 میں ضلع اٹک کے تین دیہات 29ہزار کنال زمین 30ہزار روپے فی کنال خریدنے کا نادر شاہی حکم دیا گیا تھا۔

نا انصافی اور ظلم حد سے زائد بڑھ جائے تو لوگ دہشت گردی کی طرف نکل جاتے ہیں، ہماری سیکورٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہیے، جس میں انہوں نے ’’قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کیخلاف مزید حملوں کی دھمکی دی ہے، اور کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو چاہیے کہ غلام فوج کے ساتھ ہماری جنگ سے دور رہیں۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیرستان سے بتایا جارہا ہے، ہمارے حکام کو سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں کے سرے بلوچستان، اور شمالی وزیرستان سے کیوں ملتے ہیں۔