وطن عزیزکی معیشت ایک عرصے سے مشکلات کا شکار چلی آرہی ہے، اس میں قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرضہ اٹھایا جا رہا ہے ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی فہرست بھی آجاتی ہے۔ اس فہرست پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس بوجھ سے متعلق یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ صرف مالداروں پر ہی ہوگا تاہم بالواسطہ سہی یہ بوجھ آخر پڑتا ملک کے غریب شہری پر ہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی چلی آرہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر نیا ٹیکس اسی روز پیداواری شعبے کی جانب سے صارفین کو منتقل ہو جاتا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات اور سہولتوں کی صورت میں عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ اب کی بار بھی 170 ارب کا ٹیکس فوراً عام صارف کو منتقل ہو جائے گا یہ عام صارف پہلے ہی گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی نمایاں خدوخال کے مطابق منی بجٹ کا عندیہ دے دیا گیا ہے حکومت کی جانب سے 300 سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر سرچارج عائد کرنے کا بھی کہہ دیا گیا ہے۔ ڈیزل پر مارچ اور اپریل میں مجموعی طور پر10روپے لیوی کا بھی کہہ دیا گیا ہے جب کہ پٹرول پر سیلز ٹیکس نہیں لگے گا اس کے ساتھ گرانی اور ٹیکسوں کے جاری سلسلے میں 18ادویات بھی مہنگی کر دی گئی ہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے ایسا ماڈل اختیار کیا ہوا ہے جس میں کھپت اور درآمدات پر توجہ دی جاتی ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بھارتی پنجاب میں برسر اقتدار جماعت عام آدمی پارٹی صارفین کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کر رہی ہے۔ بھارت میں عام آدمی پارٹی نے ایک کے بعد دوسری ریاست میں جس طرح بڑی اور روایتی سیاسی جماعتوں کو شکست دی ہے۔ اس سے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ جلد یا بدیر لوگ ان کے گھسے پٹے نعروں سے متاثر ہونا چھوڑ دیں گے۔ عوامی فلاح کے کاموں میں ہی سیاست اور جمہوریت کا مستقبل ہے، جو اسے اپنائے گا وہی مسند حکومت کا حق دار ٹھیرے گا۔ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب کے اعتبار سے ٹیکس کا حجم فی الحقیقت افسوس ناک حد تک کم ہے۔ حکومت کو وسائل کی ضرورت ہے اور قوم کو وہ وسائل کھلے دل سے فراہم کرنے چاہئیں بشرطیکہ حکومت انہیں صحیح طور پر قومی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ نیز معیشت کی دستاویز بندی بھی ایک مفید کام ہے اور معاشی ترقی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے ضروری اقدام ہے۔ ٹیکس کے سلسلے میں دو فیصلہ کن اور اہم ترین ایشوز یہ ہیں کہ ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈائریکٹ ٹیکس بڑھیں جن میں انکم ٹیکس کے دائرے کو موثر کرنا، ویلتھ ٹیکس کے ایسے نظام کی تشکیل جو دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس کی گرفت میں لاسکے۔ عام کاشتکار نہیں، زرعی آمدنی سے فیض یاب ہونے والے بڑے زمین داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اقدامات، بازار حصص میں سرمایہ کاری کے منافع پر ٹیکس، ایک حد سے زیادہ پر جائداد ٹیکس، نیز جائداد کے کاروبار پر ٹیکس، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے دائرے کو ٹیکس کے منصفانہ نظام میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اشیائے ضرورت اور عام اشیا، زرعی آلات اور انرجی پر اخراجات کو معقول حدود میں رکھنے کے لیے اشیا اور خدمات پر ٹیکس کا وہ نظام رائج کرنا جو متعدد شرحوں کے اصول پر مبنی ہو نہ کہ واحد شرح کا نظام جو ہمارے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
گرانی میں حقیقی مہنگائی کے ساتھ اس پر مصنوعی طور پر ڈالی گئی گرانی بھی شامل ہے۔ اس مہنگائی میں اگر ادویات بھی شامل ہوتی ہیں تو یہ زیادہ مشکلات کی حامل ہو جاتی ہے، حکومتوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہیلتھ سیکٹر میں اصلاح احوال کے اعلانات اور اقدامات کے باوجود ملک کا عام شہری سرکاری علاج گاہوں میں خدمات کے حوالے سے گلہ مند ہی ہے۔ اس شہری کو مجبوری میں نجی شعبے کے اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں کے چارجز بھی ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں۔ ایسے میں ادویات کا مہنگا ہونا مزید مشکلات بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کے ساتھ معیار کے حوالے بھی بعض پر سوالیہ نشان ثبت ہوتا رہتا ہے، جعلی اور دو نمبر ادویات برآمد ہونا معیار کے لیے بہت کچھ کرنے کا متقاضی ہے۔ اسی طرح دیگر اشیاء کے کیس میں منڈی پر کڑی نظر رکھتے ہوئے عوام کو مصنوعی مہنگائی سے بچانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ضروری ہے جو مسلسل کام کرتا رہے کبھی کبھار کے دوچار چھاپے مسئلے کا حل کبھی ثابت نہیں ہو سکتے وقت آگیا ہے کہ عوام کے ریلیف کو ترجیح دی جائے۔ وسائل کے حصول کے لیے متبادل راستے موجود ہیں۔ اخراجات کی کمی، نئے وسائل کی تلاش، کرپشن اور ٹیکس سے فرار کے دروازے کو بند کر کے وہ وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہیں اور جو ملک کو قرضوں کے نظام سے نجات اور خودانحصاری کی طرف گامزن کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے سب سے پہلے صحیح وژن کی ضرورت ہے۔ قومی قیادت کو اپنے رنگ ڈھنگ کو بدلنا ہوگا، جو لوگ ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں یا جن کی دولت ملک سے باہر ہے اور ان کی دلچسپی محض اپنی جیب بھرنے اور اپنوں کو نوازنے میں ہیں، ان سے نجات ضروری ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، نااہل ریاستی مشینری اور سیاسی قیادت ہے جس نے ایک وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال کر دیا ہے اور آج بھی صحیح منزل اور صحیح ترجیحات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت عالمی معاشی صورتحال کے پیش نظر ہمیں امداد دینے والوں کا بھی ہاتھ تنگ ہے اور اب ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں۔ وہ وقت گزر چکا ہے جب آپ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھا سکتے تھے اور پھر شرح مبادلہ کے ساتھ بلائنڈ مین بف کھیل کر یہ دکھاوا کرسکتے تھے کہ اصل ریٹ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بار ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے علاوہ بھی ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس حکمت ِ عملی میں سب سے مشکل کام زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے سے متعلق ہوگا جو بیرونی معاشی اثرات سے ہمیں بچاسکتا ہے اور ماضی میں یہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری مقامی مارکیٹ بہت زیادہ منافع کماتی ہے اور مراعات کا موجودہ نظام برآمدات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پیکیج ٹیرف کو کم کرنے اور خام مال کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے برآمدات پر مبنی ترقی کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں ترقی کے نئے راستوں کو کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں، آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ ہمیں ترقی کی نئی حکمت ِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں منافع سب سے زیادہ ہوگا اور یہ ہمیں خوراک میں خود کفیل بھی بنائے گا۔