ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر

765

میرے والد بزرگوار نے طب کے شعبے کو اپنانے کے لیے ہومیوپیتھک کا ڈپلومہ کیا جس کے بعد وہ پہلے پہل سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے۔ 15 برس تک ملازمت قائم رہی، ازاں بعد انہوں نے طب کے شعبے کو اپنایا اور تادم زیست اسی سے وابستہ رہے۔ مگر یہ ان کی زندگی کا ایک رُخ تھا وہ جسمانی امراض کا علاج کررہے تھے مگر روحانی مسیحائی کا دوسرا روپ ان کی زندگی میں اس طرح در آیا کہ انہوں نے اپنے عہد شباب ہی سے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور بہت جلد رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ تقسیم برصغیر کے بعد کا اوّلین دور تھا اور ابھی جماعت اسلامی کے قیام کو ایک عشرہ بھی نہ گزرا تھا کہ میرے والد ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اس فکر سے آگاہی پالی تھی کہ اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک ضابطہ ٔ حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشے پر حاوی اور ہر دائرہ کار میں رہنما ہے۔ تو یہی کچھ ان کا مقصد حیات بن کر رہ گیا اور معاشرے میں تبدیلی کی غرض سے وہ عوام الناس کی ذہنی تربیت میں پیش پیش نظر آئے۔
وہ ملک خداداد پاکستان کے قیام کے اصل یعنی قرآن و سنت اور شریعت کی بالادستی کے لیے ہمہ تن مصروف رہے، یہی وجہ تھی کہ کلینک سے فراغت کے بعد تحریکی ذمے داریوں سے تعلق جوڑے رہے۔ بلاشبہ ان کے شب و روز ملک عزیز میں تبدیلی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب صدر یحییٰ خان نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا تو جماعت اسلامی میدان عمل میں آئی۔ اس کے کارکنان طویل اور تھکا دینے والی انتخابی مہم چلاتے رہے جس کے درمیان شوکت اسلام کے طول و طویل جلوس نکالے گئے مگر یہ انتخابات ایک ڈھونگ ثابت ہوئے۔ بالخصوص مشرقی پاکستان میں دھاندلی اور ٹھپے بازی کی وہ تاریخ رقم ہوئی جس کے نتیجے میں ملکی استحکام کی چولیں ہل کر رہ گئیں۔ جس کی وجہ سے محض ایک سال بعد پاکستان دولخت کردیا گیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق جماعت اسلامی نے بارہ فی صد ووٹ لیے مگر تین سو سے زیادہ کے ایوان میں محض چار نشستیں اس کا مقدر بنیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنان مایوسی سے دوچار انتہائی ملول اور افسردہ نظر آئے۔ یہی وجہ تھی کہ صوبائی اسمبلی میں قومی اسمبلی والی کارکردگی نہ اپنائی جاسکی۔ میرے والد بھی اس زمانے میں خاصے دل شکستہ رہے مگر وقتی شکست ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ لاسکی، وہ ایک بار پھر اُٹھ کھڑے ہوئے پاکستان کے استحکام و اتحاد کی خاطر پھر سینہ سپر نظر آئے۔ 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکا کے سانحے نے ان کے دل پر گہرے اثرات مرتب کیے، ملک نہیں ٹوٹا تھا۔ ایک حساس شاعر نے اپنے دل کو ٹوٹتے ہوئے محسوس کیا وہ انتہائی غمگین اور رنجیدہ نظر آئے مگر دو تین روز بعد ہی حالات سے سمجھوتا کرکے ایک بار پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اب جماعت اسلامی کے سامنے بنگلادیش نامنظور کی تحریک تھی۔ مظاہرے ہونے لگے پوسٹر لگائے گئے اور اسی کی پاداش میں ایک بار پھر میرے والد کو پابند سلاسل ہونا پڑا ان کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہ تھا کیونکہ وادی نیل جیسی معرکہ ارا نظم لکھنے کی پاداش میں وہ پہلے بھی سولہ روز تک پابند قفس رہ چکے تھے۔
میرے والد ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر نے ادب سے بھی اپنا ناتا جوڑے رکھا۔ انہوں نے اپنے شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کے مسائل کو نہ صرف اُجاگر کیا بلکہ ارباب حل و عقد کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
اب بھی محفل میں کھنکتے ہیں وہی جام سبو
عدل کا پیرہن چاک ہے محتاج رفو
اب بھی مظلوم کے ناسور سے رستا ہے لہو
حکمران آج بھی ہیں تیغ و سناں کیا کہنا
جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی نے ادب برائے پاک زندگی کا ایک ایسا شعور بیدار کیا جو اصنافِ ادب میں اپنی مثال آپ کہا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ تقویٰ سے بھرپور انسانوں کی تعداد ہمیشہ قلیل رہی، اسی طرح ادب برائے پاک زندگی کے حامل ادیبوں کو بھی ہر دور میں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، بلاشبہ والد محترم ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر بھی انہی میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں۔ وہ بہت دھیمے انداز میں تحت الفظ میں اپنا کلام سنایا کرتے تھے ان کا کلام سنتے ہوئے لگتا۔
گفتگو کسی کی ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
ان کی زبان سادہ، خیال بلند، روایت کے امین، اپنے زمانے کا مکمل احساس، یہی نہیں ماضی کی یادوں سے لبریز، خیال آفرینی، یہی وجہ تھی کہ ان کا ایک ایک مصرع ورتہ خوروں کے لیے جذبات کے اظہار کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ پاکیزہ زندگی کی تبلیغ و تلقین کا خوبصورت ذریعہ بھی ثابت ہوا۔
نہ کارواں میں حمیت، نہ اتحاد، نہ درد
کہ رہبروں نے ہر ایک چیز بیچ کھائی ہے
وہ ہر چراغ بجھادیں تو باوفا ٹھیریں
میں ایک شمع جلائوں تو بے وفائی ہے
رہ جنوں کو خطرناک کہہ کر چھوڑ دیا
خرد کے ہاتھ میں اب کاسۂ گدائی ہے
ان کا مجموعہ کلام ’’نخل ِ امینہ کا خوش رنگ ثمر‘‘ کے نام سے بعداز وفات شائع ہوا۔ میرے قبلہ و کعبہ ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر جس طرح ادب برائے پاک زندگی کے قائل تھے یہی وصف ان کی عملی زندگی میں نمایاں نظر آتا تھا۔ لغو گفتگو سے اجتناب، بحث و تکرار سے دور، طنزو طعنہ سے مبرا، ایمانداری سے مزین، شرافت کا پیکر، دینی شعائر کے پابند، بلاشبہ تقویٰ کی اعلیٰ مثال تھے۔ ہم نے انہیں کبھی نماز چھوڑتے نہ دیکھا تھا بلکہ اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ انہوں نے بھی کبھی انہیں نماز باجماعت کی ادائیگی سے غافل نہ پایا عمر بڑھنے کے ساتھ جب ضعف غالب ہوا تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ تنہا مسجد نہ جایا کریں، کسی بیٹے یا پوتے کے ہمراہ جایا کریں۔ ایک مرتبہ وہ وضو کرچکے تھے اور بھائی وضو نہ کر پایا تھا وہ آہستہ آہستہ چل دیے یہاں تک کہ مسجد میں جا پہنچے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پائوں پھسلا اور پیشانی کے پاس سے خون جاری ہوگیا۔ بھائی فوراً ہی پہنچ چکا تھا مگر چند لمحوں کی تاخیر ہمارے لیے شرمندگی و ندامت کا باعث رہی کیونکہ ہر ایک نے ہم سے کہا کہ یہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کا خیال رکھو اب ان حضرات سے کون کہتا کہ اہتمام تو پورا ہے مگر ہمارے قبلہ و کعبہ انتظار نہ کرسکے۔
گھر میں شادی بیاہ کا موقع ہوتا تو اس بات پر توجہ دیتے کہ کھانے کا معیار اعلیٰ اور مہمانوں کی تواضع بہت عمدہ ہونی چاہیے۔ ان کا موقف تھا کہ مہمانوں کی اکثریت کھانا کھانے آتی ہے۔ اس لیے ان کی تواضع کا بہترین انتظام ہونا چاہیے۔ نکاح کے بعد چھواروں کے پیکٹ بانٹنے کے حوالے سے ہدایت کرتے کہ یہ چند روپے کا پیکٹ ہے جب شادی پر ہزاروں روپے خرچ ہورہے ہیں تو یہ بھی مہمانوں کی تعداد سے کچھ زائد بنائے جائیں اور تقسیم کے وقت بچے اور بڑے میں تمیز کیے بغیر ہر ایک کو ملنا چاہیے۔ میری شادی کے موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی کے تمام کارکنان و ذمے داران اور محلے کے تمام سلام دُعا والوں کو مدعو کیا جائے۔ یوں مہمانوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے قریباً 2 ہزار تک ہوگئی۔ میرے ولیمہ میں ہمشیرہ کا نکاح ہونا تھا اس کے خسر اسی روز دوپہر کو اچانک اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ یوں مرحوم کی تدفین اور مہمانوں کے طعام کا وقت یکساں تھا۔ میرے والد سمیت گھر کے تمام ہی بزرگ تدفین میں شرکت کے لیے چلے گئے اور مجھے یہ ہدایت کی کہ کھانا وقت پر شروع کیا جائے۔ مہمانوں کو بلاوجہ انتظار نہ کرایا جائے۔ شادی کے موقع پر یہ اہتمام بھی کراتے کہ گھر پر قمقمے لگائے جائیں۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ والد صاحب نے شاعری کو بھی اظہار کا وسیلہ بنایا، یہاں رہتے ہوئے جہاں انہوں نے اُمت مسلمہ کے مسائل کو اُجاگر کیا وہیں نبی پاکؐ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار بھی کیا۔
پیام عشق کو لے کر زمانے بھر میں پھروں
اس اضطراب میں دل کا قرار ڈھونڈتا ہوں
کوئی تو آپؐ کے شایان شان ہو آقا
حسین شعر بقدر وقار ڈھونڈتا ہوں
(جاری ہے)