!پاکستان کے دیوالیہ کی اصل وجہ

820

یادش بخیر، کیا سنہری وقت تھا جب وطن ِ عزیز کو زرعی ملک کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ کالونیل سرکار کے ملازمین، میرا مطلب ہے بابو لوگوں کو ان کے دیرینہ آقائوں نے سمجھایا کہ ان زرعی زمینوں پر اگر رہائشی اور تجارتی کالونیاں تعمیر کی جائیں تو آپ کا راتوں رات امیر بن جانے کا سپنا پورا ہو جائے گا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان تعمیرات کا پھیلائو اس حد تک بڑھا کہ کھیتوں اور کھلیانوں کا وجود عنقا ہو کے رہ گیا۔ یوں کالونیل سرکار کے ملازمین نے دوہرا منافع کمایا۔ ایک تو لگی بندھی سرکاری تنخواہوں پہ پلنے کے بجائے ارب پتی ہوگئے دوسرے وہ اپنی آنے والی نسلوں سمیت عوام کے ہمیشہ کے لیے آقا بن گئے۔ اور اب نظر آ رہا ہے کہ ایک وقت ہوگا کہ ملک کے سب سے مہنگے علاقے، پہاڑی، سمندر کا کنارا، نہروں پر پلاٹ زرخیز رقبے، اس ملک کی کالونیل سرکار کے ملکیت ہوگی۔ وہ ارب پتی تو ہیں ہی اب کھرب پتی ہوں گے۔ یقین نہیں تو مری، سوات، چترال، گلگت، اسکردو، کراچی، بلوچستان کی سمندری بیلٹ، کوسٹل ہائی وے گوادر میں خود تحقیق کر لیں۔ لندن، امریکا، ویسٹ کوسٹ، کینیڈا، جرمنی، ترکی میں بھی یہی گروپ آپ کو نظر آئے گا۔ یہ وہ سب لوگ ہیں جن کی تنخواہ لاکھ دو لاکھ اور ہر مہینہ دس لاکھ کی سہولتیں اور اوپر کی آمدنی پلاٹ وغیرہ بے حساب ہیں۔ کل یہ ہمارے بچوں کو بھی اپنا غلام بنائیں گے۔ اور ان کے لیے یہ کچھ مشکل اس لیے نہیں ہوگا کیوں کہ ان کا ہاتھ روکنے کے لیے عوام میں سے کوئی نہیں ہوگا۔ وہ اس لیے کہ عوام اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے چکر سے نکل ہی نہیں سکیں گے۔ معاف فرمائیے گا کہ سخت بات لکھنے لگا ہوں۔ اور وہ یہ کہ عوام اپنے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی غیرت دائو پہ لگانے کے لیے آمادہ ہو چکے ہیں۔ وہ اب کشمیر کے مسئلے پہ بات کرنے کے بجائے آلو اور پیاز کی قیمتوں پہ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تاریخ سب سے بڑی استاد ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بغداد کے حاکم معتصم باللہ کو قرآن کا حکم بھول گیا تھا تو منگول حاکم ہلاکو خان نے یاد دہانی کروادی۔ وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لیے ترغیب دیتا تھا۔ مسلمانوں کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم باللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا! کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔! پھر معتصم سے کہا: ’’کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ‘‘۔ بغداد کا تاج دار بیچارگی وبے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ بولا ’’میں سونا کیسے کھاؤں؟‘‘ ہلاکو نے برجستہ کہا: ’’پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟‘‘ وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لیے ترغیب دیتا تھا اب وہ سونے اور ہیرے جواہرات کا خوگر بنا ہوا ہے معتصم ندامت و شرمندگی کی خاموشی کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔! ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جھالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے۔ اور سوال کیا: ’’تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا: ’’اللہ کی یہی مرضی تھی‘‘۔ ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی‘‘۔ ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا…! ہلاکو نے کہا ’’آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی! اور ایسا ہی ہوا۔ تاریخ تو فتوحات گنتی ہے محل، لباس، ہیرے، جواہرات اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں۔ رسول اکرمؐ کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔ ذرا تصور کریں!! جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا اور اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری میں فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل اسکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہے تھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں؟ درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں؟ تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی۔ یاد رکھیں جن کو آج بھی دولت سے لگاؤ اور طاغوت کی غلامی کا چسکا ہے ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔ اور پھر جب موت کا فرشتہ کوئی آہٹ پیدا کیے بغیر روح قبض کرے گا تو اس کے سامنے کسی اندرونی یا بیرونی آقا کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ سوئس بینکوں میں محفوظ کروڑوں ڈالرز مالیت کی رقم ایک سانس بھی نہیں خرید سکے گی۔ خدا پاک کے حضور جب وہ پیش ہوں گے تو کوئی درجنوں گاڑیو ں کا پروٹو کول ان کے ساتھ شامل ِ سفر نہیں ہوگا۔