نازک موڑ

1003

پاکستان بہت بڑا ہے اور مجھ سمیت شاید ہی کسی نے پاکستان کا چپہ چپہ دیکھا ہو۔ میں نے جتنا دیکھا اس کے مطابق مجھے ایک نئی آبادی میں بہت بڑے بڑے چوک جس کو عرف عام میں ’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘ کہا جاتا ہے، نظر آئے۔ پرانے کراچی میں بھی پہلے چوک چوراہے ہوا کرتے تھے۔ اچھے بڑے ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی جگہ سگنلوں نے لے لی ہے لیکن یہ چوک چوراہے نئی بنائی جانی والی بستی کے انڈے بچے بھی نہیں تھے۔ عام طور پر چوک چوراہوں کو گھاس یا پھلواریوں سے سجادیا جاتا ہے لیکن میں نے پہلی مرتبہ ان چوک چوراہوں کا مثبت اور بھرپور استعمال دیکھا تو یہاں پر ہی دیکھا۔ کسی چوراہے کی وسعت سے فائدہ اٹھا کر درجنوں اونچے اونچے بلند و بالا دفاتر بنا کر اس زمین کو مصرف میں لایا گیا اور کسی میں بہت ہی بڑا تفریحی پارک بنا دیا گیا۔ جب میں اکثر ان چوک چوراہوں سے گزرتا ہوں تب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت طویل ’’موڑ‘‘ کس کو کہا جاتا ہے لیکن یہ طویل طویل موڑ بھی آخر کار چند منٹوں میں ختم ہو ہی جاتے ہیں۔
دنیا میں ایک ایسا موڑ بھی ہے جس کے آخری سرے یا اس کا اپنے سیدھے ہو جانے یا ختم ہونے کا پتا آج تک دنیا بھر کے سارے سائنسدان نہیں لگا سکے اور مسلسل اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی اس تحقیق کی تکمیل کر سکیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے دعوں کے مطابق یہ موڑ پاکستان ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس موڑ کا نام تمام سیاستدانوں (سرِ آئینہ و پس ِ آئینہ) والوں نے ’’نازک‘‘ موڑ رکھا ہے۔ اس موڑ پر چڑھنے والے ہر سیاست دان کا گزشتہ 75 برسوں سے یہ کہنا ہے کہ یہ بہت نازک ہے، اتنا نازک کہ اس کے متعلق حکیم الامت علامہ محمد اقبال صاحب خود فرما گئے ہیں کہ
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا
یہ دنیا کا ایک عجیب و غریب موڑ ہے۔ پاکستان میں جتنی اقسام کے بھی سیاستدان پائے جاتے ہیں، جن میں برساتی مینڈکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جب تک وہ کرسی اقتدار سے دور ہوتے ہیں ان کو معلوم نہیں کیوں یہ موڑ بالکل بھی دکھائی نہیں دیتا لیکن جیسے ہی ان کو کرسی ملتی ہے، یہ موڑ چودہ طبق کی طرح روشن ہو کر ان کے سامنے آ جاتا ہے۔ اقتدار سے باہر جب وہ اقتدار کی کرسی کی جنگ لڑ رہے ہوتے تو انہیں ہر جانب ہرا ہرا دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن کرسی پر بیٹھتے ہی جب ان کے خلاف کوئی جماعت یا بہت ساری جماعتیں مل کر آواز بلند کر رہی ہوتی ہیں تو جتنا شور و غل بلند ہوتا جاتا ہے ’’نازک‘‘ موڑ اتنا ہی اتنا روشن ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ قوم کو ڈرا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھیں اگر یہ موڑ اچانک کسی پل کی طرح ٹوٹ گرا تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ آج سے دو چار سال پہلے تک تو عام طور پر قوم سہم کر خاموش ہو جایا کرتی تھی لیکن لگتا ہے کہ اب عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ موڑ کسی توڑ پھوڑ ہی کا کیوں نہ شکار ہو جائے، اب ہم اس نازک موڑ کا آخری سرا ڈھونڈ کر ہی رہیں گے۔ بس اسی لیے پی ٹی آئی، جس کو ان نازک موڑوں کو ختم کرنے کا واحد حل الیکشن ہی نظر آتا ہے، اس نے حکومت کو پورے ملک میں جلد اور شفاف الیکشن نہ کرانے کا ارادہ بھانپتے ہوئے جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ فی الحال تو وہ خود اور ان کے یوتھیان گھر والوں کے لیے کئی کئی ماہ کا راشن جمع کرنے میں لگے ہیں۔ عمران خان کی جھونپڑی میں تو صرف ہیں ہی دو نفوس لیکن گھر سے باہر سارے بازاروں میں کتوں کے کھانے کی غذاؤں کی اتنی شارٹیج کر دی گئی ہے کہ وہ ان کے لیے غذا جمع ہی نہیں کر پا رہے ہیں۔ کتے کتے ہوتے ہیں، بے زبان، انسانوں کی بات اور ہے، اس لیے فی الحال انہوں نے جیل جانے سے معذرت کی ہوئی ہے۔ ویسے بھی اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی تو ساری جیلیں کھڑکی توڑ انداز میں بھر چکی ہیں لیکن وزٹ پر نکلیں تو کسی جیل کے باہر ہجوم تو در کنار، کوئی یوتھیائی سایہ تک نظر نہیں آتا۔
جلسے، جلوس، ریلیاں، جگہ جگہ مظاہرے اور دھرنے، ان سب کا مقصد ہوا ہی یہ کرتا ہے کہ حکومت سے اپنی بات منوانے کے لیے اپنا دباؤ بڑھایا جائے۔ یہی انداز ہمیشہ عمران خان کا رہا ہے اور جب سے ان کے پیروں کے نیچے سے اقتدار کا قالین بہت برے طریقے سے کھینچ کر ان کو منہ کے بل گرایا گیا ہے، اس دن سے ان کے انداز نہایت جارحانہ ہیں۔ حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھانے کے سلسلے میں جیل بھرو تحریک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس تحریک کا مقصد ہی حکومت پر اپنے دباؤ کو بڑھانا مقصود ہو، اس سلسلے میں عمران کا یہ فرمانا کہ ’’میں تو جیل جانے کے لیے تیار ہوں لیکن کیا حکومت رد عمل کو برداشت کر پائے گی‘‘، نہایت ماورائے فہم و فراست ہے۔ اگر آپ کے جیل جانے کا دباؤ حکومت برداشت نہیں کر سکتی تو دیر کس بات کی۔ کیا آپ چوہے بلی کا کھیل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، زمان پارک سے باہر آئیے، حکومت کو اپنے قدموں پر ڈھیر ہوجانے پر مجبور کر دیجیے تاکہ چوہے بلی کے اس کھیل کے اختتام کے ساتھ ہی نازک موڑ ختم ہو کر پاکستان کی جمہوریت کا قافلہ سیدھے اور ہموار راستے پر رواں ہو سکے۔