برصغیر جب تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنا گھر بار، کاروبار، زراعت، صنعت، تعلیمی ادارے، اسپتال، باغات غرض سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلے آئے، یہ گزشتہ صدی کی سب سے بڑی ہجرت تھی، خون بھی بہا، خواتین، مرد، نوجوان، بوڑھے تیغوں میں پروئے گئے، مگر کسی نے اُف تک نہیں کی، گلہ شکوہ زبان پر نہیں لائے، وجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ مسلمان اپنے ملک میں اپنے عقیدے کے مطابق، دین کے مطابق، قرآن و سنت کے تابع آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں گے، مگر یہ کیا ہوا؟ کیا ہم اپنا ملک اسلامی، جمہوریہ بنا سکے ہیں؟ یہ کیسا جمہوری ملک ہے جہاں ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف بر سر اقدار رہے، یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں مساجد محفوظ نہیں، لال مسجد کی کہانی کیا دہرائی جائے کہ یہ سب کو یاد ہے، ہاں اہل پاکستان مگر تنقید بہت کرتے ہیں، ہم کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کی خاموشی پر بھی کسی حد تک برہم رہتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے اپنا احتساب نہیں کیا، آج احتساب کرنے کا موقع ہے۔
ابھی کل کی بات قطر میں فٹ بال کی دنیا کا عالمی میلہ سجایا گیا، قطر نے اعلان کیا کہ یہاں کسی کو شراب نہیں ملے گی، غیر ملکی مہمان کھلاڑی اور شائقین بھی ہمارے مذہب کی روایت کا لحاظ رکھیں، فیفا کپ کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوا… مگر … پاکستان میں پی ایس ایل کا آغاز نصیبو لال کے گانے سے، کیا یہ دو عملی نہیں؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کشمیر ہمارا ہے یہ نعرہ لگاتے لگاتے گلے خشک ہوگئے ہیں مگر ہم میں کتنے ہیں جو بھارتی گانوں پر جھوم جاتے ہیں؟ ابھی حال ہی میں معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے خبر دی اور مودی کے بھارت کو ہندو ملک بنانے کا منصوبہ بے نقاب کر دیا اور بھارت میں بڑھتی انتہاء پسندی پر خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے تنقید کی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات میں شدید اضافہ ہوا ہے، رپورٹ میں باور کرایا گیا ہے کہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر مسلمان مخالف قوانین بنائے، رپورٹ میں بھارتی مسلمانوں کے قوانین کی تبدیلی اور کشمیر کے ناجائز غاصبانہ انضمام کا بھی حوالہ دیا گیا، ہمیں مودی سے کوئی گلہ نہیں کہ وہ ہندو ہے اور اس نے اپنی ریاست کو ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی ہے ہمیں تو گلہ اپنوں سے ہے، جو ایک مسلم ریاست کو مسلم ریاست نہیں بننے دے رہے، یہاں لبرل ازم، روشن خیالی لائی جارہی ہے۔ مشرف نے کہا تھا جسے میراتھن دوڑ نہیں دیکھنی وہ اپنا ٹی وی سیٹ بند رکھیں، جی مشرف اس ملک میں حکمران رہے، کیسے رہے؟ کس کی وجہ سے آئے؟ یہ بات اب جانیں دیں، سب جانتے ہیں کیسے آئے تھے، دیکھیے معاملہ یہ ہے کہ اگر ہندو ریاست ہندو بن سکتی ہے، تو پاکستان ایک مسلم ریاست ہے یہاں اسلامی نظام حیات کیوں نافذ نہیں ہوسکتا؟ ڈر اور خوف کس کا ہے؟ امریکا کا؟ کہ وہ ہمیں انتہاء پسند قرار نہ دے، امریکا خود انتہاء پسند ہے وہ اپنی بات دوسروں پر تھوپتا ہے، یہ انتہاء پسندی نہیں، مگر اسے کوئی جواب دینے والا حکمران نہیں ہے، پڑوس میں ہندو انتہاء پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کرکے اسے ہندو ریاست بنانے کے درپے ہیں اور رہے ہیں، اس وقت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھارت کے ہندو انتہا پسند ریاست ہونے کا عملی ثبوت ہے پاکستان میں کسی اقلیتی باشندے کے ساتھ معمولی سا واقعہ بھی رونما ہو جائے تو قانون نافذ کرنے والے عالمی ادارے پاکستان کے خلاف کہرام مچا دیتے ہیں حالانکہ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی آزادی بھی حاصل ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں اقلیتیں اپنی مذہبی آزادی سے یکسر محروم ہیں، پاکستان اس لیے دبائو آجاتا ہے کہ ہم خود اپنا راستہ چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں مگر پرائے پھر بھی ہمیں اپنا نہیں سمجھتے، پی ایس ایل کا آغاز قطر کی طرح کیے جانے میں کیا چیز رکاوٹ تھی اور قباحت کیا تھی؟