مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکٹنگ اور قانون

789

ملک مہنگائی کی گرداب میں ہے۔ قیمتوں میں اضافے نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، ہرلمحے ڈیفالٹ کا خطرہ مہنگائی کو مہمیز کررہا ہے، سوشل میڈیا لوگوں کو اکسا رہا ہے کہ وہ ہفتے عشرے کا راشن ذخیرہ کرلیں، ذخیرہ اندوزوں کی خوب چاندی ہورہی ہے، مال بک رہا ہے، سرمایہ کاری ڈبل ہورہی ہے، یہ سب کچھ ایک پلان کے تحت ہورہا ہے، مہنگائی کی ماں ذخیرہ اندوزی ہے جس کی بھیانک صورت بلیک مارکیٹنگ ہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی سرے سے نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ شرمناک بات ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جن کی بصیرت لاثانی تھی انہوں نے جب حلف اٹھایا تو اپنے پہلے حلف کی تقریر میں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف قانون سازی کا حکم دیا اور ان کے ذمے داروں کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے (یہ جرمانہ اس وقت کا ہے جب ایک تولہ سونا سو روپے سے بھی کم ہوا کرتا تھا جو اب بڑھ کر 2لاکھ پانچ ہزار روپے فی تولہ سے بھی زائد ہوگیا ہے) کی تجویز دی۔ مگر وہ مسلم قوم کا مسیحا جو دو قومی نظریہ کی کامیاب جنگ لڑنے والا خود سر راہ مسیحا کے انتظار میں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ تو پھر خاک اس پر عمل ہونا تھا۔ یوں 1948ء سے لے کر اب تک 2023ء ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی گئی کیونکہ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ ہی کمائی کا آسان اور خوب کمائی کا ذریعہ ہے۔ سرمایہ دار، سیاست دان، وڈیرے، دکاندار، تاجر سیزن پر خوب ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر قلت ساماں کرکے خوب لہو چوستے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کے اس فرمودہ کا انکشاف بھی گزشتہ دنوں نظریہ ضرورت کے تحت منظر عام پر آیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں جناب جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے سامنے ضلعی انتظامیہ کے اختیارات کے بارے میں فریادی کے وکیل طارق منصور نے اس تقریر کا متن عدالت کے سامنے رکھ کر اس کو طشت ازبام کیا تو جسٹس صاحب نے سرکاری وکیل کو کہا کہ انتہائی اہم کیس ہے آئندہ سماعت پر آپ مکمل تیاری کرکے آئیں ہم سماعت کرکے فیصلہ کریں گے۔ اب بات عدالت میں فیصلہ طلب ہے اور یقینا وہ عوام، ملک کے مفاد میں شرعی نکتہ نظر سے فیصلہ فرمائیں گے جو ذخیرہ اندوزی کی بیخ کنی کرتا ہے۔ ویسے بھی ذخیرہ اندوز پتھر دل ہوتا ہے، جب معاشرہ مہنگائی کے کوڑے کھا رہا ہوتا ہے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور پھر کچھ غیر شرعی فعل کا کفارہ عمرہ کرکے ادا کرتے ہیں اور پاک پووتر کہلاتے ہیں، اب ڈالر اور سونے کی ذخیرہ اندوزی ہی کی بدولت ان کی مالیت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے، سرمایہ داروں کا رُخ اس طرف ہے اور بلیک مارکیٹنگ عروج پر ہے اور قانون سرے سے نہیں۔ ڈالر کے نرخ میں اضافے کی خبریں کیا آئیں ہر شے کے ریٹ ذخیرہ اندوزوں نے قلت کرکے اور معاشرے کو خوف زدہ کرکے ڈیمانڈ بڑھا کر بڑھادیے۔ گندم، چاول، چینی جو بنیادی ضرورت کا سامان ہیں آسمان تک ان کے نرخ میں ذخیرہ اندوز تاجر، زمیندار سیزن کے موقع پر بینک سے قرض لے کر بھی سستی داموں خریدتے ہیں اور خفیہ گوداموں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ چینی کے سیزن میں تو اس کے تاجروں سے انڈنٹ خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور انہیں گودام کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اب یہ سٹہ بازی عام ہورہی ہے اور ہر اک شے کی ہورہی ہے۔ دواساز اداروں سے پورا سال بھر کا تیار شدہ مال خریدنے کا سودا ہوتا ہے اور پھر مصنوعی قلت سے روپے پہ روپیہ کمایا جاتا ہے اور ریٹ اگر اتفاقاً گر جائیں یا دل میں بے ایمانی آجائے تو دیوالیہ کا سرٹیفکیٹ لے کر عدالت کی معرفت بچائو کا سامان کرلیا جاتا ہے۔ کچھ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی گزشتہ سال گندم کے حوالے سے ہوئی تو گندم ضبط کرکے اُن کو سرکاری نرخ پر ادائیگی کی گئی اور کوئی سزا نہ دی گئی کیونکہ قانون میں سزا ہی نہیں ہے۔
ڈالر مہنگا ہوا، آئی ایم ایف کے پھندے نے معیشت کی جان کنی کا سامان کردیا تو ذخیرہ اندوز گدھ کی طرح اُمڈ آئے اور ہر مقامی چیز بھی ڈالر سے منسلک کرکے خوب لوٹ کا بازار گرم کر ڈالا۔ پرائس کنٹرول کا محکمہ بھی ہے مگر صرف تنخواہ وصولی کی حد تک ہے۔ معمولی جرمانہ کرکے فرض کفایہ ادا کرتا ہے اور رسم نبھاتا ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ ڈالر مہنگا ہوگیا، درآمدی اشیا کی قلت کی بات ہوسکتی ہے مگر مقامی اشیا کی قلت ہرگز نہیں، وہ گوداموں میں قید ہے اور لوٹ کا سامان ہیں، آپ کو ایران کی مثال دیں وہاں امریکی ڈالر 42 ہزار 22 ریال کا ہوگیا مگر ایران میں لوٹ کھسوٹ اور مہنگائی کا وہ طوفان نہیں جو ہمارے پیارے ملک پاکستان میں حشر اُٹھایا ہوا ہے، یہاں ایک ڈالر 270 روپے کا ہے، ایران میں کیوں طوفان بدتمیزی نہیں وہاں امام خمینی کی حکومت کی جانب سے دی جانے والی بدعنوان عناصر کو پے در پے پھانسیوں کا خوف لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہے کہ قانون میں کوئی رعایت نہیں ہوگی اور پاکستان میں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی روک تھام کا قانون سرے سے نہیں کھلی چھوٹ ہے۔ پکڑا جائے تو رشوت دے کر چھوٹ جائے، اب ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ ہی کا کاروبار ہے۔
پاکستان دوقومی نظریہ ہندو مسلم اقوام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا مگر پاکستان میں پھر دو قومی نظریہ یوں قرار پایا کہ ایک اشرافیہ ہے جس کو کھلی چھوٹ ہے۔ سب دروازے اُن کے لیے کھلے ہیں وہ جو مرضی میں آئے کریں، ذخیرہ کریں یا منی لانڈرنگ اُن کی مرضی، دوسرا طبقہ مظلوم، مقہور، غربا مساکین کا ہے جس کو روٹی، کپڑا اور مکان کے دلاسے میں بہلایا ہوا ہے، ان کے دُکھ کا درماں تو دور کی بات ہے ان کی داد رسی بھی کہیں نہیں، عدل کا پلڑہ بھی بااثر کی سمت جھکتا ہے اور دوسرا طبقہ جوتیاں چٹخاتے مرجاتا ہے۔ قانون سازی ہوجائے تو بھی ذخیرہ اندوزوں کا کیا بگڑے گا کا سوال ہے دیگر قوانین نے کون سے پھاڑے مار دیے ہیں یہ تو ان کے لیے مکڑی کے جال کی طرح ہے۔ مگر بات یہ بھی ہے قانون ہوگا تو ذخیرہ اندوزوں کو ٹپکے کا ڈر ہوگا۔ یوں بے خوف لوٹ کا بازار بند ہوا تو کم ضرور ہوگا اور قانون ہوگا تو کوئی اللہ کا بندہ ایسا حکمران آجائے گا پھر صدر ایوب کے ماشل لا کے دور کی طرح نوٹوں کی بوریاں لوگ گلیوں میں چھوڑ گئے اور ذخیرے دریا بُرد کردیے۔ یقینا تنگی کے بعد آسانی ہے یہی فرمان الٰہی ہے۔ اس کو ہونا ہے کب اور کیسے یہ تو وہی ذات باری جانتی ہے، بندے کو اپنے حصے کا کام اور حکمران کو ان کا کام کرنا چاہیے۔ ذخیرہ اندوزوں بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے خلاف کڑی سزا کی قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کہیں یہ وقت بھی نہ نکل جائے، خمینی کا وہ دور جس کو حمید گل گرم انقلاب سے تعبیر کیا کرتے تھے وارد نہ ہوجائے۔