معاشرے میں منشیات کا بڑھتا رحجان

375

منشیات کا استعمال اور خرید و فروخت بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر ہاتھ میں اسلحہ نہیں تو جیب میں زہر کی پڑیا یا بوتل تو موجود ہے جو وہ نسلوں کو دے رہا ہے۔ وہ بھی تو زندہ درگور کررہا ہے، لمحہ لمحہ قتل کررہا ہے اُس سے اُس کے ہوش و حواس چھین کر۔ اور اسلام میں ہر قسم کا نشہ منع ہے۔ ممانعت اس لیے ہے کہ انسان اس سے محسوس کرنے کی صلاحیت اور شرم و حیا کھو بیٹھتا ہے۔ پھر یہ زہر اسے موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔

پہلے تو فٹ پاتھوں پر نشے میں دھت بوریا بستر کے ساتھ بوڑھے اور نوجوان ہی نظر آتے تھے، مگر اب اس زہر کے بیوپاریوں نے تعلیمی اداروں کا رُخ کرلیا ہے، کالجوں اور جامعات کے بعد اسکولوں کا رخ کرلیا ہے۔

کچھ دن ہوئے لاہور کے ایک کالج میں ہم جماعتوں نے اپنی جماعت کی بچی کو الکوحل پیش کیا، اُس نے منع کیا تو اُس پر شدید تشدد کیا اور اسے بری طرح سے مارا۔ الکوحل غیر مسلم کو کارڈ پر ملتی ہے۔ ان طالب علموں کے پاس کہاں سے آئی؟

پہلے تو ہیروئن، آئس اور افیون تھی، اب سرِ عام شراب کا استعمال بھی طالب علموں میں آگیا۔

ایک ماہرِ تعلیم نے کہا: اگر کسی ملک کو معاشی و معاشرتی طور پر کمزور کرنا ہے تو اس کے نظامِ تعلیم کو خراب اور نوجوانوں کو اخلاقی طور پر تباہ کردیں۔

ہمارے ملک میں بچوں اور نوجوانوں کے تعلیمی اداروں میں جو غیر ملکی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ قوالی نائٹس اور بون فائر پارٹیز میں بہت غیر اخلاقی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ ترقی اور آزادی کے نام پر ہائی کلاس میں موو کرنے کے چکر میں لوگوں نے اپنے بچوں پر نظر رکھنا چھوڑ دی ہے۔

والدین ہائی سوسائٹی کے چکر میں اولاد اور اپنی ذمہ داریوں کو نظرانداز کردیتے ہیں تو دشمن عناصر کے لیے راستہ صاف ہوجاتا ہے۔

کچھ چھوٹے طبقوں میں معاشی بدحالی سے تنگ افراد اور بچے بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔

ٹی وی چینل پر دکھایا گیا کہ پانچ چھ سال کی بچی اسکول میں پڑھتے ہوئے نشے کی لت میں پڑ گئی۔

سڑک پر آٹھ نو سال کی بچی نشے میں لڑھکتی بھیک مانگ رہی تھی۔ ایک خواجہ سرا نشے میں پھر رہا تھا۔ یقینا شراب نوشی کی تھی۔

M Catکے امتحان میں لڑکی امتحان دینے کے لیے انجینئرنگ یونیورسٹی میں سگریٹ پیتی ہوئی اتری تو لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

گھریلو خواتین گھریلو حالات سے تنگ یا شوہر کی لاپروائی سے پریشان ہوکر نشہ کررہی ہیں۔ عشق میں ناکامی پر لڑکیاں لڑکے نشے کی لت میں پڑ گئے۔ امتحانات کی پریشانی سے تنگ آکر نشہ شروع کردیا۔

والدین کے لڑائے جھگڑے سے پریشان بچے نشہ شروع کردیتے ہیں۔

کام والی نشہ کرتی تھی، اس نے بچے کو بھی لگا دیا۔

غربت سے تنگ، ذہنی انتشار میں مبتلا یا کمزور اعصاب کے لوگ اس طرف جلدی راغب ہوجاتے ہیں۔ اس کی کئی منزلیں اور ادوار ہیں۔

بحیثیت والدین ہمارا اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی فرض ہے کہ ایسی تنظیموں کو بے نقاب کریں، اپنے فرائض پورے کریں اور کسی غیر ملکی این جی او کو اپنے بچوں کی تعیلم و تربیت اور مستقبل سے مت کھیلنے دیں۔ والدین کو تعلیمی اداروں اور گھروں میں بند کمروںمیں بچوں کی غیر معمولی مصروفیات اور حلقہ دوستی پر نظر رکھنی چاہیے۔ یہ انتہائی ضروری ہے۔