خشک سالی، سیلاب اور ڈیموں کی ضرورت

774

ہمارا بھی عجب معاملہ ہے اگر کسی سال موسم گرم اور خشک رہے، بارشیں کم ہوں اور موسم سرما میں برف باری بھی کم ہوجائے تو خشک سالی کا واویلا کرتے ہیں، بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں کہ پانی کی تقسیم کیسے ہوگی؟ کس صوبے کو کٹوتی کے بعد کتنا پانی ملے گا اور پھر صوبوں کی باہمی رنجش اور رسہ کشی منظر عام پر آتی ہے کہ اس صوبے نے فلاں صوبے کا حق مار لیا اور پانی کی تقسیم صحیح نہیں ہوئی۔ اس کا دوسرا پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ برف باری زیادہ ہو، گرمی کی شدت اور غیر متوقع اور اندازے سے زائد بارشیں ہوجائیں تو بھی ہماری نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں کہ یا اللہ رحم! اب تو ہر طرف پانی ہے، اس تباہی سے بچا۔ بے شک اللہ ک فرمان درست ہے انسان بڑا ناشکرا ہے اور جلد باز ہے، بارش نہ ہو تو رحمت کی دعائیں، نماز استقاء کا اہتمام اور بارش ہوجائے تو اسے روکنے کے لیے اذانیں، اور سندھ کے بعض علاقوں میں تو بارش روکنے کے لیے درختوں پر قرآن کریم لٹکانے اور گدھوں کو اُلٹا باندھ کر لٹکانے کی روایتیں مشہور ہیں۔ یہ تمام باتیں ایک جگہ، مسئلہ یہ ہے کہ کسی سال بارش کم ہونے سے ہم ایک دَم کیوں بلبلا اُٹھتے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ آبی ذخائر کی کمیابی اور ناقص منصوبہ بندی۔ گزشتہ 75 سال میں ہم محض دو بڑے ڈیم بنانے میں کامیاب ہوئے اور ان کی تعمیر کو بھی اب 50 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک تہائی کم ہوچکی ہے۔ کیونکہ پانی کے ساتھ آنے والی مٹی ان کی سطح میں مٹی کی مقدار کو بڑھانے کا باعث ہورہی ہے۔ یوں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ طویل عرصہ گزرنے کے بعد ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے میں سیاسی اتفاق رائے کی کمی کو دوش دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم نے تو سوائے کالا باغ ڈیم کے کسی اور ڈیم کو متنازع انداز میں نہیں سنا، شاید اس کی وجہ ہماری منصوبہ بندی میں ڈیموں کی تعمیر کا سرے سے نہ ہونا ہے۔ اگر بعض صوبے کسی ڈیم کے مخالف ہیں تو اسے بالائے طاق رکھ دیا جائے، دوسرے مقامات پر ڈیم بنائے جائیں یہی نہیں چھوٹے ڈیموں کو بنانے پر توجہ دی جائے جو کم لاگت اور مختصر عرصے میں تیار ہوجاتے ہیں اور ان کی افادیت بھی جو کم لاگت اور مختصر عرصے میں تیار ہوجاتے ہیں اور ان کی افادیت بھی زیادہ عرصے تک برقرار رہتی ہے کیونکہ بڑے ڈیموں کی نسبت چھوٹے ڈیموں پر آنے والی مٹی کی صفائی زیادہ آسان اور کم خرچ ہے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کی مناسب صلاحیت کے بعد کسی وقت خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اب ذرا دوسری جانب آئیے۔ اگر موسم سرما میں خوب برف باری ہو اور موسم گرما شدت سے آجائے تو پگھلتی ہوئی برف ہمارے لیے ایک مسئلہ پیدا کردیتی ہے اور پانی کا بڑھتا ہوا بہائو سیلابی کیفیت سے دوچار کردیتا ہے، اس پر طرہ مون سون کی بارشیں ہیں اگر وہ وقت سے پہلے آجائیں تو سارا انتظامی اور حکومتی نظام دھرا رہ جاتا ہے۔ جب پانی کا یہ بہائو دریائوں سے گزرتا ہے تو اپنے کنارے توڑ کر قریبی آبادیوں میں تباہی و بربادی مچاتا ہے، حالانکہ حکومتی اعلانات سامنے آتے ہیں کہ پشتوں کی دن رات نگرانی کی جاتی ہے، فوج اور انتظامیہ چوکس ہے، تمام انتظامات کرلیے گئے ہیں مگر تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ عملاً یہ دعوے دھرے رہ جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال ہوا۔ سیلابی ریلا تباہی مچاتا ہوا جب تک بحیرہ عرب میں نہ گر گیا شاید ہی کوئی علاقہ اس سے محفوظ رہا ہو۔ اس مسئلے پر جس قدر غور کریں اسی قدر پرتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ہمارے یہاں محکمہ انہار ہر سال ایک کثیر رقم ان پشتوں کی نگرانی کے لیے مخصوص کرتا ہے مگر انہیں مضبوط بنانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آتی۔ آپ سالانہ بجٹ کا بغور مطالعہ کرجائیے ان میں قدرتی آفات کے لیے تو رقوم مختص ہوتی ہیں لیکن قدرتی آفات سے تحفظ کے لیے کوئی عملی کوشش یا رقم آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ مثال کے طور پر صوبہ سندھ میں سکھر بیراج سے بحیرہ عرب تک دریائے سندھ کے راستے میں تقریباً 30 مقامات پر پشتے کمزور ہیں۔ یہ بات گزشتہ کئی سال سے سننے میں آرہی ہے جب بھی سیلابی ریلا آتا ہے انہیں مضبوط بنانے کی عارضی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اصل میں اس طریقے کے ذریعے بہت سی رقم خورد برد کرنے کا موقع غنیمت ہاتھ آتا ہے۔ پانی کے کٹائو، مٹی کے بہائو اور مشینری کو ایک مقام سے دوسری مقام تک پہنچانے میں ہنگامی بنیادوں پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس کا نہ تو آڈٹ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مشاہدہ۔ اگر حکومت نیک نیتی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو ہر سال بجٹ میں چند مقامات کی نشاندہی کرکے انہیں پختہ کردیا جائے تا کہ آئندہ سال کمزور مقامات کی تعداد کم رہ جائے اور یہ کمی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے مگر اس کام کے لیے پُرخلوص، دیانتدار اور ملک سے مخلص انتظامیہ کی ضرورت ہے جو ہمارے یہاں ناپید ہے۔ ایسی صورت میں عوام کیا کریں؟ گرمی کی شدت سے تنگ آکر برسات مانگیں تو سیلاب کا خطرہ اور سیلاب سے بچنے کی صورت میں وہی خشک سالی، فصلوں کی تباہی، مہنگائی جیسی آفات۔ کیوں نہ ہم دعا کریں کہ اللہ ہمیں دیانتدار، بے لوث اور خلوص نیت سے ملک کی خدمت کرنے والی قیادت عطا کرے (آمین)۔