سوشل میڈیا پر ترکیہ زلزلہ

311

خود ساختہ جلا وطنی اور طویل بیماری سے نبردآزما رہنے کے بعد 79 برس کی زندگی کاٹ کرپرویز مشرف اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے کیا روانہ ہوا ، سوشل میڈیا پر ایک نیا میدان سج گیا۔ وہ نسل جو 1998 میں پیدا ہوئی اور اب 2023 میں جوان ہوئی ہے ، اُس کو تو معلوم ہی نہیں کہ 1999-2008 کا پاکستان کیسا تھا؟جو اُس وقت جوان تھے ، جنہوں نے وہ سب دیکھا تھا آج وہ ادھیڑ عمر ہو چکے ہیں، اُن میں سے بھی اکثر کی یادداشت خاصی کمزور محسوس ہوئی ۔ویسے سوشل میڈیا پر میدان کیا سجا یہ بھی سمجھ لیجیے۔تو ایشو یہ تھا کہ اب اُس کے مرنے کے بعد اُس کی مغفرت کی دُعا کرنا کیسا عمل ہے؟اُس کو مرنے کے بعد اب کس طر ح یاد کرنا چاہیے۔سوال دلچسپ تھا۔ ایمانی غیرت کا معاملہ تھا۔دوسری بات یہ کہ بنیادی عقائد سے تعلق تھا ۔ ہمارے انچارج صاحب سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہ اب موضوع ہی ایمانیات ہے تو قارئین کو بات سمجھانے کے لیے قرآن و حدیث و اَسلاف اُمت کے عمل سے سمجھنے کی خاطر مدد لینی ہوگی۔

اب چلتے ہیں مشرف کی جانب ، جس کے مرنے پر رحم، معافی کی دُعا ایک وجہ تنازع بنی نظر آئی ۔غداری کیس میں اعلیٰ عدالتی فیصلے کے باوجود کسی نے اُس پر عمل نہیں کیا۔عدالتی حکم کے مطابق اگر مفرور صدر کی موت پاکستان سے باہر ہوجائے تو اُس کی لاش کو تین دن ڈی چوک پر لٹکایا جائے گا۔مگر ایسا نہیں ہو سکا، اُلٹا سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی میں تدفین کر د ی گئی۔دوسری جانب سینیٹ میں دُعا بھی نہیں کرائی گئی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے صاف منع کردیا ، گوکہ چیئرمین سینیٹ درخواست کرتے رہے مگر سینیٹر مشتاق احمد نے آئین توڑنے کوجواز بنا کر صاف انکار کر دیا۔سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے بطور حکمران دو قسم کے جرائم ہیں ۔ ایک تو وہ جو ملکی قوانین میں جرم کے طور پر جانے گئے ۔اُن کے لیے متعلقہ عدالت نے تاریخ ساز فیصلہ بھی دیا۔ان میں آئین توڑنا، عدلیہ سے محاذ آرائی، بھارت نوازی نمایاں جرائم بنے۔ سوشل میڈیا پر لوگ عدالتی فیصلہ دینے والے جج وقار سیٹھ کی قبرکی تصاویر شیئر کرکے خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ فیصلہ یاد دلاتے رہے کہ لاش کو لٹکایا جائے۔اب یہاں مسئلہ یہ تھا کہ جیسے ہی عدالتی حکم پر عمل کی بات کرو ، لوگوں کو لاش کی بے حرمتی اور اسلام کے احکامات یاد آجاتے۔

اب دوسری قسم کے جو جرائم ہیں وہ شرعی طور پر گناہ کی بلند ترین سطح پر ہیں ،یہ سطح اتنی بلند ہے کہ مشرف فاسق، فاجر ،منافق، گمراہی کی منازل طے کراتا،ارتداد کے دائرے میں ڈال کر اسلام سے ہی خارج کرادیتا ہے۔یہ مت سوچیے گا کہ میں کوئی فتوی لگا رہا ہوں۔ علمائے کرام کے ایک گروہ کا فتویٰ آج بھی موجود ہے جس نے اکتوبر2001ء میں امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے خلا ف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ یہ کوئی 2-4گلی محلہ کے علما نہیں ہیں ، یہ 500 علماء کا تفصیلی اور متفقہ فتویٰ ہے ۔اس کے انکار کی کوئی وجہ ماسوائے ہٹ دھرمی یا ضد کے کوئی نہیں ہو سکتی۔قرآن مجید کی کئی نصوص موجود ہیں ،جن میں صاف طور پر لکیر کھینچ دی گئی ہے کہ ’’جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا۔ وہ بھی انہی میں سے ہو گا۔‘‘ (سورۃالمائدۃ آیت 51 )۔مفسرین ان آیات کے ذیل میں ’دوست بنانے ‘کی جو ترتیب بتاتے ہیں، اس کی تمام شکلیں پرویز مشرف کے اعمال پر پوری اترتی ہیں،خصوصاً امریکی جنگ کا حصہ بننے پر۔دوسری بات یہ کہ کسی کے بارے میں جو کچھ ظاہر ہے، عموم میں ہےاُس پر ہی فیصلہ دیا جاتا ہے۔یہی نہیں منافقین کی نماز جنازہ اور مغفرت کی دعا سے روکنے کا بھی واضح حکم موجود ہے، جو ایک فرد کے لیے خاص نہیں ، عام ہے ، ہر اس شخص کے لیے جس کی منافقت، اسلام کے مجموعی مفاد ، مسلمانوں کے مجموعی مفاد سے غداری واضح ہوجائے۔لال مسجد سے لیکرخیانت عہدہ، جھوٹا وعدہ، دشمن کو عافیہ کی حوالگی، 12 مئی، 9 اپریل، ہلکے گناہ نہیں ہیں۔نبی کریم ﷺ کی احادیث میں مرنے والوں پر بات نہ کرنے کا حکم صرف میرے آپ کے جیسے عامی مسلمانوں کے لیے ہے ، فی زمانہ ابلاغی سہولیات کے بعد حکمرانوں کے اعمال کا عام نہ ہونا ممکن نہیں رہا۔اس لیے حکم بھی لگے گا۔سیدی امام اعظم ابوحنیفہ ؒاپنے استاد امام حماد بن ابی سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے استاد امام ابراہیم نخعی ؒکو حجاج کی موت کی خبر دی تو وہ سجدے میں گر گئے۔حماد کہتے ہیں: میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی خوشی سے روتا بھی ہے؛ اس دن ابراہیم نخعی کو خوشی سے آنسو بہاتے دیکھا تو اس کا پتا چلا!(طبقات ابن سعدجلدسوم) یہ تو تھا سلف صالحین کا عمل ، اب ظاہر ہے کہ اُن کا فہم قرآن ہم سے تو بہتر ہی ہوگا۔اَب ایسے موڑ پر جب کسی کے پاس جواب نہ ہو تو سوشل میڈیا پر ایک نفسیاتی سوال جھاڑاجاتا ہے ، وہ ہوتا ہے موازنے کا ، کہ فلاں حکمران ، فلاں آرمی چیف کو کیوں نہیں ایسا کہتے۔ فلاں فلاں تو اُ س سے ملتا تھا، حکومت میں تھا ۔تو جناب حکم سب پر ہے ، موقع پر ہی لگے گا۔یہاں سارا موضوع مرنے کے بعد کا ہو رہا ہے ،مگر مثالیں ساری زندگی کی دی جاتی ہیں۔بھٹو کو مرے 50سال ہو گئے ، ایوب ہو یحییٰ ہو یا کوئی اور جس جس نے یہ کام کیے سب پر یہی حکم لگے گا،اُن کی اپنی پارٹی کے علاوہ کوئی ان کی مغفرت کی دعا نہیں کرتا۔ مشرف کے جنازے کے فوٹیج بھی بہت واضح تھے ، کہ کتنے لوگوں کو اُس کی مغفرت کی دلچسپی ہے۔ مگر چونکہ نہ آپ باقیوں کے دور میں ہیں نہ تھے تو اب 2023 کے سوشل میڈیا پر اُس وقت وحالات کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ اہم بات ہے سمجھنے کی کہ کس کام کی اجازت اللہ دے رہا ہے ، کس کی نہیں۔ حساب اللہ ہی کو لینا ہے مگر یاد رہے کہ حکمران ایک الگ کیٹگری ہے جس کے لیے الگ انعامات بھی ہیں اور احکامات بھی ہیں۔

ویسے سوشل میڈیا پراس ہفتے ایشوز اور بھی تھے ، ان میں ترکی اور شام میں آنے والا زلزلہ سر فہرست تھا ۔تادم تحریر کوئی 9000کے قریب اِنسان اس قدرتی آفت میں جان سے جا چکے ہیں کوئی 50ہزار کے قریب متاثرین کا تخمینہ ہے، ترکیہ کے 10 شہر اس زلزلے سے متاثر ہوئے ۔دنیا بھر سے متاثرین زلزلہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا تا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مستقل ٹرینڈز جاری رہے، وہاں سے امدادی کاموں کے سلسلے میں آنے والی دل دوز وڈیوز او ر تصاویر نے دل دہلا دیئے تھے ۔لوگ ترکیہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے ڈی پی پر ترکیہ کا پرچم لگاتے رہے، امدادی ٹیمیں و سامان بھیجا گیا ۔بدھ کو ناجائز اسرائیل نے بھی ایک جہاز بھر کے اپنی امدادی ٹیم بھیجی ۔ (نوٹ: اسرائیل اور ترکیہ کے سفارتی تعلقات کمال پاشا کے دور سے بحال ہیں ، اسرائیل کے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم بدستور جاری ہیں)مگر فرانس کا ملعون رسالہ ’چارلی ہیبڈو‘ اِس موقع پر بھی باز نہیں آیا۔ اُ س نے ترکیہ کے زلزلے کا مذاق اڑاتے ہوئے ٹوئیٹر ’’کارٹون آف دی ڈے‘‘ کے عنوان کے تحت ایک سنگین پوسٹ کر ڈالی۔ ایک جانب اس قدرتی آفت میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے تلاش اور کوششیں جاری ہیں، دوسری جانب فرانس کا یہ متعصب رسالہ جس انداز سے نفرت انگیز مواد شائع کر رہا ہے اُس نے جذبات کو مزید مشتعل کیا۔کارٹون میں گرتی عمارتیں اور اور زلزلے کے بعد ملبے کاڈھیرہے۔ اوپر ’’ترکیے میں زلزلہ‘‘ لکھا ہوا ہے اور نیچے ’’ٹینک بھیجنے کی ضرورت نہیں‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔چارلی کے ٹوئٹر پیج پر ساڑھے 5 لاکھ کے قریب فالوورز ہیں، اس کارٹون ٹوئیٹ پر 4 کروڑ ویوز ہو چکے ہیں جو کہ اس کی عمومی پوسٹوں سے کہیںزیادہ ہے ،اس ٹوئیٹ پرکوئی 22 ہزار جواب دیئے گئے ،جس میں اکثریت نے چارلی کے اس عمل پر سخت الفاظ میں مذمت کی ۔

لوگ سمجھتے ہیںکہ یہ دُنیا بھر کےمسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ہے،مگر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام درحقیقت یورپ میں مقیم مسلمانوں کو ’دینی غیرت سے خالی‘کر کے ’بے غیرتی‘ کا عنوان دینے کےلیے ہے۔ فرانسیسی استعمار کے بعد سے مسلمان فرانسیسی شہریوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویوں کی طویل تاریخ ہے۔ حالیہ فرانسیسی حکومت میں صدر ایمانوئل میکرون کے ذریعہ اس کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا ہے۔

ایک پوسٹ یوں بھی اس ضمن میں نظر آئی کہ ’’بے ضمیر،بے غیرت، بے دین، بے ہمیت امت کو جگانے کے لیے تویہ کارٹون کم ہے ۔پر جتنا بھی ہے ٹھیک ہی ہے۔اے ترکیہ، اے بلاد الشام یہ کارٹون تیرے لیے نہیںپوری امت پر طمانچے کی صورت ہے۔ہم ترے غم میں آفت اور آزمائش میں تیرے ساتھ ہیں۔مگر یہ چارلی ایسے نہیں سدھر رہا کیونکہ وہاں مقیم 50 لاکھ مسلمان بے حس ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ انکے دھندے چلتے رہیں اور ان کے گھر کے قریب جو کوئی ، جیسی چاہے شیطانی کرے تو بس لاکھوں میل دور کے مسلمان اپنے گلی کوچوں میں احتجاج کریں، اور وہ اپنی نوکریاں اور شہریت کو تحفظ دے کر اُسی حالت میں جیتے رہیں۔‘‘کتنی بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے نام پر دُنیا بھر میں شور مچایا جاتا ہے مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ خود وہاں کے مسلمان جو اس نفرت کا شکار ہیں وہ خود اپنے لیے کیا کرتے ہیں؟ ماسوائے مغربیت کی لا دین چادر کو اپنے گرد اور سختی سے لپیٹنے کے۔بس یہ ظاہر کرسکیں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں ، آپ جو چاہیں کریں ، ہمارے نبی ، ہماری کتاب اور ہمارے دین کے ساتھ ، ہم آپ کے قانون کے مکمل پابند رہیں گے اور ایک مقررہ سائڈ پر کچھ دیر پوسٹر پکڑ کر واپس اپنے کاموں کو چلے جائیں گے۔ مجھے وہ حدیث مبارکہ یاد آتی ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ مگر یہاں ، دار الحرب میں جاتے ہی، اولاد، کاروبار، نوکری، والدین ، میسر آسائشیں سب اہم ہو جاتے ہیں۔اس بے حمیتی کی حد یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ مغرب میں قانون سازی کا طریقہ ہی یہی ہے کہ وہاں بھر پور ردعمل دیا جائے ، وہ اپنے آپ کو ’’عدم تشدد یا امن ‘‘کا علمبر دار کہتے ہیں اور اس لیے وہ فوراً قانون سازیاں کرتے ہیں، مگر یورپ میں مقیم ۴کروڑ مسلمانوں کو یہ ایمانی ہمت نصیب ہی نہیں ہوتی۔دوسری جانب مسلمان ملکوں میں جہاں ایسا کوئی مسئلہ ہوتا ہی نہیں ہے وہاں شدید رد عمل نظر آتا ہے، جس سے یورپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

اس کے ساتھ ایک اور دلچسپ بحث بھی سوشل میڈیا پر موضوع بنی کہ ، ترکی ایک بڑے زلزلے کا منتظر تھا،تو اس کا اندازہ پہلے کیوں نہیں لگا سکے؟کیا یہ زلزلہ امریکی سازش تو نہیں؟یہ زلزلہ اس لیے آیا کیونکہ “زمین کے دو ٹکڑے ایک دوسرے سے افقی طور پر پھسل رہے ہیں” ۔یہ اسی قسم کا زلزلہ ہے جو کیلیفورنیا میں سان اینڈریاس فالٹ کے ساتھ آیا۔ترکی دنیا کے نقشے پر ہر سال 2 سینٹی میٹر گھسٹ رہا تھا ، اس زلزلے کے بعد مزید مغرب کی سمت گھسیٹ دیا گیا۔ماہرین کے مطابق ترکی کا خطہ ایسی جگہ پر ہے جہاں زلزلوں کے امکانات پہلے سے ہی زیاد ہ ہیں۔میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ ساری زمین آسمان اور جو کچھ اس کے اندر ہے ، جوکچھ اس کے درمیان میں ہے، سب اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے۔ اللہ نے یہ زمین انسانوں یا جانداروں کے رہنے کے لیے تخلیق کی ،مطلب اس کے اندر انسانوں کے رہنے کے تمام اسباب موجودہیںجو اس زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل رکھتے ہیں۔جدید سرمایہ دارانہ نظام نے آسان اور پرتعیش زندگی کے نام پر زمین کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ زمین کے اندر کی معدنیات کو ٹیکنالوجی کی آڑ میں آسانیوں اور آسائشوںکے دھوکے میں جس طرح برباد کیا ہے وہ زمین کے توازن پر لازمی اثر انداز ہوگا۔زمین کے اندر موجود تیل، گیس ودیگرذخائر کو نچوڑ نچوڑ کراستعمال کرکے کیا اثرات سامنے آئے ہیں ، یہ ہمارے سامنے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری نے پاکستان کے سیلاب کی وجہ کے بارے میںتمام ترقی یافتہ مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ،’صنعتوں کی وجہ سے آلودگی نے کرہ ارض کی حدت میں بڑی حد تک اضافہ کر دیا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سیلاب آ رہے ہیں، اِسی صورتحال کا سامنا پاکستان کو بھی ہے۔دوسرے ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کی وجہ سے پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہو رہی ہے جس کا نشانہ پاکستان جیسے ممالک ہیں۔‘‘گویا یقین مانیں کہ یہ ساری نام نہاد ترقی و ٹیکنالوجی نے اب زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ہے۔ انسانی تاریخ میں ترقی کے نام پرایسی تباہی کبھی نہیں آئی ، کیونکہ زمین کے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہیں برتا گیا۔