سابق وزیراعظم عمران خان نے شوکت خانم اسپتال ٹرسٹ کے تین ملین ڈالرز کی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپتال کے عطیات جائز ہیں یا نہیں اس کا جائزہ لینے کے لیے کوئی میکنزم نہیں تھا۔ انہوں نے اس بات سے بھی لاعلمی ظاہر کی کہ امتیاز حیدری پی ٹی آئی کے ڈونر تھے یا نہیں انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ شیخ سلیم المشافی کون ہے۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے شوکت خانم اسپتال سے ایک اعتبار سے لاتعلقی کا اعلان کردیا کہ اس کے فیصلوں کا مجھے علم نہیں وہ مجھ سے پوچھ کر فیصلے نہیں کرتے ان کی آڈٹ رپورٹ ہوتی ہے۔ البتہ انہوں نے یہ بتادیا کہ آف شور بے نامی کمپنیوں میں 3 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی لیکن 2008ء میں سرمایہ کاری کی گئی تھی اور 2015ء میں رقم واپس آگئی تھی۔ یہاں بس یہ سوال ہے کہ کیا خیرات زکوٰۃ کے پیسوں کو کسی تعمیراتی منصوبے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا کرنے والا صادق اور امین ہوسکتا ہے؟ یہ بات بڑی تشویشناک ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والا ذمے دار فرد اتنے بڑے بڑے فیصلوں سے لاعلم رہے۔ اس طرح تو ایسے فرد کو ملک میں کوئی ذمے داری دینا بھی خطرناک ہوگا۔ 2008ء میں 3 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تو 2015 میں ڈالر کی قیمت کے مطابق رقم واپس ملی یا پاکستانی روپے کی قدر کے مطابق رقم ملی اور سرمایہ کاری کا کتنا منافع ملا؟ اس کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔