اعتراف وندامت

699

یہ تو طے ہے کہ تاریخِ انسانیت میں عہدِ رسالت مآبؐ وعہدِ صحابہ سمیت کوئی بھی انسانی معاشرہ ایسا نہیں گزرا کہ جس میں سرے سے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن وسنت اور شریعت میں حدود وتعزیرات کے احکام اور نظامِ عدل کی نوبت ہی نہ آتی۔ انسانیت کو جرم وگناہ سے واسطہ پڑتا رہے گا، البتہ شفاف عدل، قانون کے حقیقی نفاذ اور اخلاقی وتربیتی ماحول میں اس کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ آج کی دنیا میں بھی جرائم کی روک تھام کے لیے تعزیراتی قوانین اور عدالتیں ہر ملک میں قائم ہیں۔ الغرض اس پر انسانیت کا اجماع ہے کہ وعظ وتذکیر، معاشرتی دبائو اور اصلاحی تحریکیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک حد تک تو مفید ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے ذریعے معاشرے کی جرائم سے سو فی صد تطہیر عملاً ممکن نہیں ہے۔
رسول اللہؐ کے فرائض نبوت بیان کرتے ہوئے قرآنِ مجید میں ایک فریضہ ’’تزکیۂ نفس‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی تعلیم وتربیت، وعظ وتذکیر اور صحبتِ صالح کی برکات کے ذریعے اعمالِ صالحہ کی ترغیب کے ساتھ ساتھ لوگوں کے قلوب واذہان کا تزکیہ کرنا۔ رسول اللہؐ نے صحابۂ کرام کی صورت میں ایسا ہی پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صحابہ کرام خطا اور گناہ سے معصوم تھے، کیونکہ یہ نبوت کا خاصّہ ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ رسول اللہؐ کی تعلیم وتربیت اور صحبت کی برکت سے اُن کے قلوب واذہان اتنا پاکیزہ ہوچکے تھے کہ اگر کسی وقت بشری کمزوری کے تحت اُن سے گناہ سرزد ہوجاتا، تو جب تک اس کا ازالہ نہ کرلیتے، انہیں چین نہ آتا۔ عہدِ حاضر میں شفاف عدل، قانون کا بلا امتیاز نفاذ اور سزا کا خوف ہی کسی حد تک انسان کو ارتکابِ جرم سے روکے رکھتا ہے یا اگر معاشرے میں خیر غالب ہے تو معاشرتی دبائو بھی انسان کو اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے برائی سے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے، لیکن مکمل اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ اسلام میں خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو انسان کو جرم اور گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔
بعض اوقات انسانی معاشرے پر شر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ لوگ برائی کے اظہار میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اور بندوں سے کوئی حیا یا حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ قومِ لوط کی اسی کیفیت کو قرآن نے بیان فرمایا ہے: ’’کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں (عَلانیہ) برا کام کرتے ہو، تو اُن کی قوم کا جواب صرف یہ تھا: ’ہم پر اللہ کا عذاب لے آئو اگر تم سچے ہو‘۔ (العنکبوت: 29) یعنی آخرت کی جزا وسزا پر عدمِ یقین انسان کو بے حیائی اور فسق وفجور کی اُس انتہا تک لے جاتا ہے کہ جرم عیب کے بجائے افتخار بن جاتا ہے۔ آج ہم تقریباً اسی طرح کے دور سے گزر رہے ہیں کہ جرم عیب نہیں رہا اور مجرم اپنے آپ کو قابلِ ملامت نہیں سمجھتا، پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا:
سچ میرے دور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنِّ عظیم، آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل وبے رہ روی، ایک آزار ہے آگہی یانبی
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عَدُوّ، میرے باہر عَدُوّ
ماجرائے تحیُّر ہے پر سیدنی، صورتِ حال ہے دیدنی یانبی
جس طرح صاف وشفاف اور سفید کپڑے پر کوئی داغ لگ جائے، تو نفیس طبع انسان بے قرار رہتا ہے کہ لوگوں کی نظر اس داغ پر پڑے گی، لیکن اگر کوئی موٹر مکینک ہے یا پینٹنگ کا کام کر رہا ہے اور اس کے لباس پر سوداغ پہلے سے لگے ہوئے ہیں، اگر دس داغ اور بھی لگ جائیں، تو اُسے بالکل کوئی بے چینی محسوس نہیں ہوتی۔ یہی صورتِ حال گناہوں کی آلودگی کی ہے کہ اگر دامنِ ایمان وعمل پہلے ہی داغ دار ہے، تو کسی تازہ گناہ کا داغ اُسے بے چین نہیں کرتا، لیکن اگر اُس کی لوحِ قلب وذہن پاکیزہ ہے، تو گناہ کا معمولی داغ بھی اُسے بے قرار کردیتا ہے تاوقتیکہ توبہ کر کے اور شریعت کے مطابق اس کا ازالہ کر کے اپنے قلب کو پاک نہ کرلے۔ لیکن یہ اُس صورت میں ہوتا ہے کہ ضمیر زندہ ہو اور اُس کے اندر قدرت نے خیر وشر میں تمیز کی جوصلاحیت رکھی ہے، وہ بدستور کام کر رہی ہو ورنہ اُس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’ایک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا: ایمان کیا ہے، آپؐ نے فرمایا : جب تمہاری نیکی سے تمہیں سُرور نصیب ہو اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے، تو تم مومن ہو، صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ! گناہ کیا ہے؟، آپؐ نے فرمایا: جب کسی چیز سے تمہارے دل میں گھٹن محسوس ہو، تو اُسے چھوڑ دو‘‘، (مسند احمد) ’’ایک شخص نے رسول اللہؐ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا، آپؐ نے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے‘‘۔ (ترمذی)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ضمیر خیر وشر میں تمیز کے لیے کسوٹی ہے، ٹیسٹنگ مشین ہے اور کوئی بھی ٹیسٹنگ مشین اُسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب وہ قابلِ کارہو۔ اگر مشین ناکارہ ہوجائے تو وہ صحیح نتیجہ نہیں دیتی، اسی طرح ضمیر مر جائے یا گناہوں سے آلودہ ہوجائے، تو اُس کی صلاحیت معطّل ہوجاتی ہے۔ جس طرح کسی ناکارہ ٹیسٹنگ مشین کو دوبارہ قابلِ کار بنانے کے لیے اُسے اُووَر ہال کیا جاتا ہے، ناقص پرزوں کو بدل دیا جاتا ہے اور پوری مشین کی سروس کر کے اُسے دوبارہ قابلِ کار بنایا جاتا ہے، اسی طرح مردہ ضمیر کو حیاتِ نَو عطا کرنے اور اُسے دوبارہ قابلِ کار بنانے کے لیے توبہ کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے، جس کے چھے مراحل ہیں: (الف) ماضی کے گناہوں کا اعتراف، (ب) اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت، (ج) اللہ تعالیٰ سے اُن پر معافی طلب کرنا، (د) شریعت میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان کی تلافی کرنا، (ہ) آئندہ اُن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے پیمانِ وفا باندھنا، (و) اور اس پیمانِ وفا پر ثابت قدم رہنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیقِ خیر طلب کرنا۔ اسی کو ’’تَوبَۃُ النَّصُوْح‘‘ کہتے ہیں اور اسی کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا: ’’گناہوں سے (سچی) توبہ کرنے والاگناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے، جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘، (ابن ماجہ) ’’ایک شخص کسی ہلاکت خیز سنسان جنگل میں سوگیا اور اس کی سواری زادِ راہ سمیت موجود ہے، پھر اچانک وہ جاگتا ہے تو سواری کو غائب پاتا ہے اور اس کی تلاش میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ پیاس اُسے بے حال کردیتی ہے، پھر وہ سوچتا ہے: میں اُسی جگہ واپس جاکر سوجاتا ہوں حتیٰ کہ میری موت واقع ہوجائے، پھر وہ اپنے بازو پر سر رکھ کر سوجاتا ہے، پھر اچانک وہ بیدار ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اُس کی سواری زادِ راہ سمیت موجود ہے، جتنی خوشی اس مایوسی کے عالَم میں سواری اور زادِ راہ پانے پر اُس مسافر کو ہوتی ہے، اس سے زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب بندۂ مومن توبہ کرکے اُس کی طرف پلٹ آئے‘‘۔ (مسلم)
اسی بامعنی توبہ کا نام ’’تزکیۂ قلب ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک جب مومن کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے، سو اگر وہ توبہ کرلے تو اُس کا دل پاک ہوجاتا ہے، لیکن اگر وہ بدستور گناہ کیے جاتا رہے یہاں تک کہ گناہوں کی تاریکی اُس کے پورے دل پر چھا جائے، تو یہی وہ ’’رَین‘‘ ہے، جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں! بلکہ اُن کے کرتوتوں کے سبب اُن کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے‘‘۔ (المطففین: 14)
مقبول توبہ کی تعریف قرآن نے یہ کی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن (گناہ گار بندوں کی) توبہ کو قبول کرنا اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے، جو نادانی میں گناہ کر بیٹھیں، پھر (جرم کا احساس ہوتے ہی) جلد توبہ کرلیں، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے‘‘۔ (النساء: 17)
اس کے برعکس ناقابلِ قبول توبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور اُن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہے، جو گناہ کرتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ جب اُن میں سے کسی کی موت آ جائے تو وہ کہتا ہے: میں نے اب توبہ کی اور نہ اُن لوگوں کی توبہ قبول ہے جن کی موت کفر کی حالت میں واقع ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (النساء: 18) اسی مفہوم کو رسول اللہؐ نے بیان فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ سکراتِ موت طاری ہونے تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
مقبول توبہ کی معراج اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمائی ہے: ’’اور (رحمن کے پسندیدہ بندے) وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اُسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا، وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اُسے دُگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اُس میں ہمیشہ ذلیل ہوکر رہے گا، مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کیے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (الفرقان: 68-70)
اس پر بھی علماء نے بحث کی ہے کہ اگر کسی پرگناہ کی پاداش میں قانونِ شریعت کے مطابق حد نافذ ہوجائے، تو کیا وہ آخرت کی جواب دہی سے بچ جائے گا، اس کے بارے میں علمائے احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر دنیا میں سزا پانے سے قبل اُس نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرلی ہے، تو وہ آخرت کے مواخذے سے بچ جائے گا، ورنہ اگر اُس نے اپنے جرم کو جرم مانا ہی نہیں، تو دنیا وی سزا پانے کے باوجود آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکے گا، یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اعترافِ گناہ، احساسِ ندامت اور توبہ اُخروی مواخذے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ مفسدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سوائے اُن کے جو تمہارے اُن پر قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں‘‘۔ (المائدہ: 34) حدیثِ پاک میں ہے: ’’جس شخص نے اِن جرائم (شرک، زنا، چوری،قتلِ ناحق) کا ارتکاب کیا ہو اور اُسے دنیا میں سزا دے دی جائے، تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہے‘‘۔ (مسلم) مُسلَّمہ فقہائے احناف نے لکھا ہے: ’’حدود کا مرتکب توبہ کیے بغیر محض دنیاوی سزا سے آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکتا‘‘۔ (جاری ہے)