محمد بلال غوری
یوں تو ہر لحظہ ہمارے مغالطوں اور مبالغوں کا پردہ چاک ہوتا ہے مگر پی ڈی ایم کے برسراقتدار آنے کے بعد دو بڑے مغالطے دور ہوگئے۔ ایک یہ کہ شہباز شریف بہت کمال کے منتظم ہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی معیشت، ڈالر کے نرخ اور آئی ایم ایف کو اسحاق ڈار سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ شہباز شریف تین مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور اس دوران کارکردگی کے پیش نظر یہ تاثر مضبوط ہوگیا کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں بیشک نہیں ہیں مگر وہ کام کرنا جانتے ہیں۔ وہ ترقیاتی منصوبے جو مکمل ہونے سے پہلے حکومتیں رخصت ہوجایا کرتی تھیں، مختصر مدت میں مکمل ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ مگر وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہونے کے بعد شہبازشریف کی یہ انتظامی صلاحیتیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ انہوں نے کہا تھا، ضرورت پڑی تو میں اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کروں گا مگر صورتحال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے عام آدمی کو گھر کے برتن فروخت کرنا پڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جب مقررہ مدت سے پہلے اچانک پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے گئے تو اسے بدانتظامی اور نااہلی سمجھا گیا مگر بہترین منتظم کے دور میں بھی یکم فروری کا انتظار کیے بغیر پٹرول کے نرخ بڑھا دیے گئے تو اسے کیا نام دیا جائے؟ اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آئل کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان نے قیمتیں بڑھنے کے متوقع امکان سے فائدہ اْٹھانے کے لیے ایک ہفتہ پہلے ہی فروخت روک دی ہے اور بحران کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اسی طرح دوا ساز کمپنیوں کے مالکان بھی پیداوار بند کرکے حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں اور ادویات کے نرخوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتیں اور خوبیاں مفقود اور نابود ہوگئی ہیں۔ وفاق میں ان کا جادو کیوں نہیں چل پایا؟ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ تاثر یکسر غلط تھا؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک حقیقی سرگزشت آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ میرے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ ان کی اہلیہ بہت اچھی بریانی بناتی ہیں مگر جب بھی وہ دوستوں کو مدعو کرتے ہیں تو کوئی گڑ بڑ ہوجاتی ہیں اور ذائقہ دار بریانی نہیں بن پاتی۔ جب اس مسئلے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ معاملہ دراصل مقدار کا ہے۔ گھر میں آدھا کلو چاول پکانے کے لیے ترکیب کارآمد ہے، انہیں معلوم ہے کہ ایک گلاس چاول ہوں تو دو گلاس پانی ڈالنا ہے، مصالحہ جات کتنے ہوں، آنچ ہلکی ہو یا تیز؟ ان کے شوہر بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مگر جب دیگچے میں تین چار کلو چاول پکانے کا مرحلہ آتا ہے تو ڈگمگا جاتی ہیں، شوہر کی سہولت کاری بھی میسر نہیں آتی تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ شہباز شریف کے ساتھ بھی یہی واردات ہوئی۔ وہ نہایت سازگار اور پرامن ماحول میں کام کرنے کے عادی ہیں۔ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے تو ان کے بڑے بھائی وفاق میں وزیراعظم کے طور پر موجود ہوتے۔ کب اپنی مرضی کا افسر تعینات کرنا ہے، اس حوالے سے انہیں کبھی کوئی مشکل درپیش نہ ہوتی ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز یا غیر ملکی قرضوں کے حصول کے لیے گارنٹی دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آتی۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت ہونے کے باعث وہ اپوزیشن تو کیا حکومتی ارکان صوبائی اسمبلی کی بات سننے کے روادار بھی نہ تھے۔ جبکہ اب حالات بالکل مختلف ہیں۔
شہباز شریف کی طرح اسحاق ڈار سے متعلق بھی مجھ سمیت بیش تر لوگ غلط فہمی کا شکار تھے۔ تاثر یہ تھا کہ پاکستانی معیشت کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا یہ جو روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے، ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں، ایک ہی شخص بیچ منجدھار ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی کو پار لگا سکتا ہے اور اس کا نام اسحاق ڈار ہے۔ توقع تھی کہ ان کی پاکستان آمد سے حالات بہتر ہوںگے مگر خواب سراب ہی نہیں عذاب بن گئے۔ اسحاق ڈار کی ناکامی کی وجہ بھی سازگار ماحول فراہم نہ ہونا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے ’’بلوم برگ‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے یومیہ 50لاکھ ڈالر غیر قانونی طور پر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کو ہر روز تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر درکار ہوتے ہیں، ان میں سے نصف اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم ہوجاتے ہیں کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہر ہفتے4کروڑ ڈالر کی امداد نقد فراہم کی جاتی ہے جبکہ باقی ماندہ ڈالر غیر قانونی طور پر ڈالروں کی اسمگلنگ سے پورے کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپیہ اس خطے کی سب سے کمزور کرنسی بن چکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر محض 3ارب ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ افغانی اس خطے کی سب سے مضبوط کرنسی بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے بعد دسمبر 2021ء میں ایک امریکی ڈالر 124.18 افغانی میں دستیاب تھا مگر اب افغان کرنسی 89.96 افغانی میں ایک ڈالر دستیاب ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر جو دسمبر 2021ء میں 176.51 روپے کا تھا اب 274.70 روپے کا ہوچکا ہے۔ اسمگلنگ روکنا جن کی ذمے داری ہے کیا شہبازشریف ان سے جواب طلبی کرسکتے ہیں؟