قائداعظمؒ کا مزار نہیں بیچنا

833

اے ابن آدم ملک کا حال آپ کے سامنے ہے، بھارت میں پیاز 10 روپے کلو، آلو 10 روپے کلو، افغانستان میں پٹرول کی قیمت دیکھ لیں وہاں ڈالر کی اوقات دیکھ لیں اور اپنے ملک کے حکمرانوں کا حال دیکھ لیں۔ پیاز 220 روپے پہلے تو ڈالر پر اور پھر پٹرول پر ریکارڈ اضافہ کرکے ایک ہی جھٹکے میں غریب اور سفید پوش خاندانوں کی کمر توڑ دی۔ آج بانی پاکستان کی روح بے چین ہوگئی۔ قارئین کو سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق مرحوم تو یاد ہوں گے وہ سرکاری زمینیں الاٹ کرنے کے بادشاہ تھے، آدھا کراچی تو وہ من پسند لوگوں کو الاٹ کرچکے تھے، کسی نے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے جام صادق کی شکایت کی جس پر بھٹو صاحب نے اُن کو فون کرکے کہا تھا قائداعظمؒ کا مزار چھوڑ دینا آج ایک بار پھر یہ اہم جملہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے حکومتی نااہلی پر ادا کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی، پی ڈی ایم، ن لیگ نے کشمیر انڈیا کے حوالے کیا یہ امریکا کے غلام ہیں اور قوم کو شودر سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی غلامی میں اندھے حکمرانوں نے ایک مرتبہ پھر عوام پر پٹرول بم گرادیا، معیشت کو تباہ کردیا، کرپٹ ٹرئیکا عوام کا دشمن ہے انگریز چلا گیا لیکن اس کے ملازم ہم پر مسلط ہیں ملک کا محنت کش مزدور، کسان رات کو بھوکا سوتا ہے، حکمرانوں کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں یہ سب ملک کے قانون سے بالا تر ہیں اگر موجودہ حکومت کا بس چلے تو یہ قائداعظمؒ کا مزار بھی فروخت کردیں۔
ہمارے ملک میں جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ سب سے پہلے سرکاری زمینوں کو اُونے پونے میں فروخت کردیتا ہے۔ ملک ریاض طاقت کی ایک بڑی مثال ہے، دنیا کو معلوم ہے اُس کے پیچھے کن کن لوگوں کا ہاتھ اور سرمایہ کاری لگی ہوئی ہے، ہرے بھرے کھیت جو سونا اُگلتے تھے جہاں کسان کاشت کاری کرتا تھا۔ آج وہاں پر بحریہ ٹائون نظر آتا ہے جس سرمایہ دار نے، جاگیردار نے، سیاستدان نے فائدہ اُٹھایا، اُس میں سب سے بڑی کمزوری انصاف کے ادارے کی ہے جس کے کئی جج بھی کرپشن کا حصہ بنے رہے، ملک کے کئی نامور جنرلز نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، ہمارے کچھ لکھاری صبح سے شام تک زرداری صاحب کی قربانی کی باتیں کرتے ہیں اُن کو سیاست کا بادشاہ کہتے ہیں، اُن کو ملک میں جمہوریت کی علامت سمجھتے ہیں جبکہ وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہیں، غیر ملکی بینکوں میں ڈالرز اور سونا پڑا ہے، دبئی کے شہر اجمان میں رئیل اسٹیٹ میں بڑی سرمایہ کاری ہے۔ کے الیکٹرک کی نجکاری ہو یا کوئی غیر ملکی امداد ہر جگہ اُن کے بندے موجود ہیں، مال تو اب اُن کو کمانے کی ضرورت نہیں اب بس اُن کی ایک ہی خواہش ہے کہ اپنے بیٹے بلاول کو پاکستان کا کسی طرح سے بھی وزیراعظم بنائیں، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کی سازش کا وہ حصہ تھے اور نئی حکومت میں اپنے بیٹے کو وزیرخارجہ بنایا تا کہ پوری دنیا سے اُن کا تعارف ہو جائے۔ بلاول کے نانا جان بھی پاکستان کے وزیرخارجہ رہے تھے مگر بلاول نانا کی طرح تیز نہیں ہیں، ابھی اُن کو مزید وقت درکار ہے۔
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جس سے ملک کی عوام متاثر ہے اس وقت پاکستان کی اقتصادی بدحالی نے سارے ریکاڈ توڑ کر رکھ دیے ملک کی تاریخ میں کسی حکومت نے کبھی پٹرول پر اتنے پیسے نہیں بڑھائے، پٹرول اور ڈیزل پر 35 روپے فی لیٹر اور بے شرمی اتنی کہ فرماتے ہیں کہ ہماری مجبوری ہے۔ آئی ایم ایف کا دبائو ہے۔ ارے غلاموں تم نے آئی ایم ایف کی غلامی کرکے آج ملک کا یہ حال کردیا ہے۔ 2008ء میں ڈالر 60 روپے کا تھا ملکی و غیر ملکی قرض ملا کر صرف 6 ہزار ارب تھا پھر ایک زرداری سب پر بھاری نے کہرام مچادیا۔ اُن کے دور میں ملکی قرضوں میں 8 ہزار ارب کا اضافہ قوم بھول گئی۔ زرداری صاحب اور میاں صاحب شوگر ملیں چلاتے رہے نقصان ہوا تو صرف عوام کا ہوا۔ خان صاحب نے صرف قوم سے وعدے کیے سہانے خواب دکھائے، اَن کے دور حکومت قرضوں میں 20 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت میں 170 روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔
یہ سارے حکمران معیشت سے نابلد ہیں کسی نے کبھی غورکرنے کی کوشش کی کہ 2008ء سے قبل 60 سال تک ملک کیسے کامیابی سے چلتا رہا۔ ملک میں اس وقت کرپشن کم تھا اداروں میں ایماندار افسران تھے عدلیہ اور فوج میں بھی باشعور اور محب وطن لوگ موجود تھے پھر ایک دم ایسے حالات کس طرح سے ہوئے تو بقول ابن آدم ملک کو تباہ کرنے میں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور خان صاحب بھی برابر کے شریک ہیں، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر دنیا کے واحد اسلامی ایٹمی ملک کو دیوالیہ کیا جارہاہے؟ میرا ملک کے ہر طاقتور سے یہ سوال ہے کہ یہ ایٹم بم ہم نے بڑی قربانی دے کر حاصل کیا، عالمی طاقتوں کی نظر ہمیشہ سے ہمارے ایٹمی پلانٹ پر لگی ہے ان کو ہمارا ایٹم بم ہضم نہیں۔ ملک کی سلامتی کا دارو مدار یہ ہمارا ایٹم بم ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق عالمی بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی منظوری موخر کردی جبکہ سستی توانائی کے لیے 60 کروڑ ڈالر کا قرض بھی موخر کردیا۔ وزیراعظم کشکول لے کر ملک بچانے کی کوشش کررہے ہیں مگر کسی کو سیاست میں کرپشن کا کلچر اور افسر شاہی و سیاسی رہنمائوں کی نااہلی کیوں نظر نہیں آتی۔ میاں شہباز شریف، مریم نواز، زرداری ہر جرم اور کرپشن سے پاک کردیے گئے۔ یہ ہیں ہمارے ملک کے ادارے پاکستان کو اور عوام کو بچانا ہے تو ملک کے کونے کونے سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ افسر شاہی کی ایک بڑی تعداد جو بالکل نااہل ہے صرف سفارش اور رشوت کے ذریعے بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہیں اگر نااہل سیاسی قیادت اور نااہل افسر شاہی کا راستہ نہیں روکا گیا تو پھر تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
آخر میں زرداری صاحب، میاں صاحب اور خان صاحب سمیت اسٹیبلشمنٹ سے میرا ایک سوال ہے کہ کیا آپ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قوم کے سامنے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا کسی غیر ملک میں اکائونٹ یا جائداد نہیں، یہ ملک کیا آپ کا ملک نہیں ہے، اس ملک سے جو مال کمایا ہے آپ اور آپ کے حواریوں نے اُس کا صرف 50 فی صد ملک کے خزانے میں لا کر جمع کرادیں، ملک و قوم کے مستقبل کی خاطر تو میں واقعی یہ سمجھوں گا کہ آپ ملک و قوم کے حقیقی رہنما ہیں۔ خدا کے لیے کچھ سوچیں۔