بہت عرصہ پہلے ایک ناول کا اردو ترجمہ پڑھا تھا ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ آج اپنے اہل وطن اور اہل صوبہ کو مسائل اور مصائب کے انبار اور پہاڑ تلے دبے دیکھتا ہوں تو اس ناول کے نام کی مناسب سے بے اختیار ذہن میں در آتا ہے ’’حالات کے مارے لوگ‘‘۔ قنوطی اور قنوطیت پسند ہونا ہرگز ہرگز کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے!!؟ جب ہر سمت اور ہر جانب ہی اپنے جیسے لوگ پریشان حال اور دُکھی دکھائی دیں تو پھر بھلا اُمید کی کوئی کرن کہاں سے اور کس طرح سے پھوٹ سکتی ہے؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے اور محلہ کے بچوں کو اسکول لانے اور لے جانے والے رکشا ڈرائیور آچر سومرو سے ملاقات ہوئی تو اسے بے حد مایوس اور دل گرفتہ پایا۔ میرے استفسار پر کہنے لگا کہ ’’حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں موجودہ حکومت نے جس طرح سے ظالمانہ انداز میں یک لخت 35 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا ہے اس کی وجہ سے بے حد پریشان ہوں۔ کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، بمشکل رکشا کے کشن وغیرہ کو بنوانے کے لیے چھے ہزار روپے جمع کیے تھے لیکن اب لگتا یہ ہے کہ میرے جمع کردہ پیسے میرے ارادے کی تکمیل کے لیے ناکافی ثابت ہوں گے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا پہلے ہی بے حد گراں تھیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں موجودہ اضافے سے وہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ کل ہی اخبار میں پر تشویشناک خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ ماہ رمضان میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے حساب اضافہ ہوگا۔ دالوں کی قیمت 900 روپے فی کلو تک بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ کی پناہ! مطلب یہ ہے کہ اب عام افراد دال خریدنے سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ خدانخواستہ ایک طرف بے چارے عوام کا مہنگائی کی وجہ سے جینا دوبھر
ہوچکا ہے تو دوسری طرف ہمارے حکومتی وزرا، مشیر، ایم این ایز اور ایم پی اے صاحبان، جعلی انتظامیہ کے افسران کے اللے تللے کم یا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔
کل ہی ایک عجیب اور قابل افسوس منظر دیکھا کہ شہر کی ایک اہم سڑک سے چشم زدن میں درجن بھر پولیس اور نجی بڑی گاڑیوں کے جلوس سابق وزیراعظم (نگران) سابق چیئرمین سینیٹ ایم این اے محمد میاں سومرو بڑے تام جھام کے ساتھ گزر گئے۔ وطن ِ عزیز نادہندہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے لیکن ہمارے حکومتی ذمے داران اور اپوزیشن کے رہنما اپنے پروٹوکول کو ترک کرکے سادگی اپنانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ ملک اور قوم اگر مشکل صورت حاصل سے دوچار ہیں تو ان کی بلا سے۔ ان کے نمود ونمائش اور نام نہاد دکھاوے، شوبازی میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ یہ روش حکومت سندھ کے وزرا اور ایم پی اے ایز نے بھی اپنا رکھی ہے۔ بلاتخصیص سب ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں اور وہ ہے بے حسی اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی اور اغماض کا بے رحمانہ رویہ اہل سندھ تو خصوصیت کے ساتھ چکی کے دوپاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں۔ یعنی یک جان مجنوں را دوگنا عذاب کی سی بدترین صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف حد درجہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے اور دوسری جانب شدید بدامنی، ان موضوعات پر سندھی اخبارات میں کالم لکھنے والے کالم نگار اور سندھی نیوز چینلز پر تبصرہ آرائی فرمانے والے تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار خامہ فرسائی اور ابتر حالات کی نشاندہی اپنے اپنے تبصروں اور تجزیوں میں کرکرکے تھک چکے ہیں۔ عاجز اور بے زار ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت سندھ کے متعلقہ ذمے داران کے کانوں پر بھولے سے بھی کسی جوں تک نے بھی جنبش کی ہوا اور وہ ذرا برابر بھی رینگی ہو۔
حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔ ایک عام ستم رسیدہ فرد کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اس وقت بھی سندھ کے کچے کے علاقے میں دو درجن کے قریب مغوی ڈاکوئوں کے ظالمانہ شکنجے میں اذیت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بے رحم ڈاکو اپنے پاس قید مغویوں کی اپنی جانب سے ان پر کیے گئے ظالمانہ اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کرکے ان کے اہل خانہ سے تاوان یا ’’بھُنگ‘‘ کی بھاری رقم کا مطالبہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن محکمہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرح سے ہر سال ان پر جو اربوں روپے کرچ کیے جاتے ہیں وہ تو پھر بالکل ہی ضائع اور رائیگاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک عام فرد جب مغویوں کو ویڈیوز میں ڈاکوئوں کی قید میں زنجیروں میں جکڑا ہوا ڈاکوئوں کے بے رحمانہ تشدد سے آہ و بکا کرتے دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہوجاتی ہیں لیکن حکومت سندھ کے ذمے داروں اور متعلقہ ذمے دار اداروں کے افسران کے دل شدید پتھر کے ہیں۔
ڈہرکی کے بیس دن قبل ڈاکوئوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے مغوی اصغر کنبھڑو اور دیگر مغویوں پر ڈاکوئوں کے ظالمانہ تشدد کی
وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی ان کی غیرت و حمیت کو بیدارکرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ایسے میں آئے دن قبائلی بے سمت اور بے مقصد جھگڑوں سے بھی بدامنی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سندھ کا شاید ہی کوئی ضلع ایسا ہوگا جس میں اس وقت مختلف متحارب قبائل کی لڑائیوں کی بنا پر وسیع اراضی پر محیط علاقے نوگو ایریاز نہ بنے ہوئے ہوں گے۔ انا پرست قبائلی سردار اپنے اپنے قبائل کے سادہ لوح بلکہ ہوش و خرد اور شعور سے عاری افراد کو محض اپنا اُلو سیدھا کرنے کی خاطر باہم لڑوانے میں مصروف ہیں۔ بڑے پیمانے پر عام افراد کی آئے دن ہلاکتیں ہورہی ہیں لیکن پس پردہ ملوث قبائلی سردار کیوں کہ حکومت سندھ کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ روز ہی جیکب آباد کے تھانہ دوداپور کی حدود میں ببر جمالی اور تھہیم قبائل کے مبینہ ایک چھوٹے سے سرکاری پلاٹ پر خونیں جھگڑے میں دو سگے بھائیوں سمیت 7 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ خاندان کے خاندان ہر ضلع میں اس نوع کی خون ریز لڑائیوں میں اُجڑتے چلے جارہے ہیں۔ مجھ سے تو کل سندھی نیوز چینل کے ٹی این پر دیکھا گیا وہ منظر ہی کسی طور نہیں بھولتا جس میں کندھکوٹ میں ایک جواں سال دشمنی کی بھینٹ چڑھنے والے مقتول کے بے جان لاشہ سے لپٹا ہوا اس کا دس بارہ برس کا معصوم اور کم سن بچہ دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے مخاطب تھا کہ ’’بابا ہانے انسان تو کھاں سوا کیئن رھنداسین‘‘ مزید لکھنے کی تاب ہے اور نہ مجال۔ آنکھیں نم ہیں اور دل فگار۔